کوئٹہ(اسٹاف رپورٹر)وزیر داخلہ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ پنجگور اور آواران میں فورسز ، امدادی ٹیموں اور تعمیراتی کمپنیوں پر حملوں کے جواب میں آپریشن کیا گیا،بلوچستان کے چھ سے سات اضلاع میں بھارت کی مدد سے کالعدم تنظیمیں سرگرم ہیں اور مزید کالعدم تنظیمیں جنم لے رہی ہیں۔ سول سیکریٹریٹ کوئٹہ میں آپریشن سے متعلق میڈیا کے نمائندوں کو بریفنگ دیتے ہوئے صوبائی وزیر داخلہ نے کہا کہ عسکریت پسندوں کے فراری کیمپوں کی موجودگی کی اطلاع ملی ایف سی نے علی الصبح سرچ آپریشن شروع کیا ،شرپسندوں نے اپنے کیمپوں میں مورچہ زن ہو کر ایف سی اہلکاروں پر فائرنگ کی اور چھوٹے اور بڑے ہتھیاروں کا استعمال کیا۔ جوابی کارروائی میں 10 عسکریت پسند ہلاک ہو گئے ،فائرنگ کے تبادلے میں تین ایف سی اہلکار شدید زخمی بھی ہوئے جنہیں ہیلی کاپٹر کے ذریعے سی ایم ایچ کوئٹہ منتقل کر دیا گیا ہے ،مارے جانے والے عسکریت پسندوں کی لاشیں ایف سی نے تحویل میں لے لی ہیں جبکہ اس سے قبل قلات آپریشن میں عسکریت پسند اپنے ساتھیوں کی لاشیں اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ عسکریت پسندوں کے تمام فراری کیمپس تباہ کر دئیے گئے ہیں کیمپوں سے بھاری مقدار می اسلحہ اور دھماکہ خیز مواد بھی برآمد کیا گیا ہے ۔صوبائی وزیر داخلہ نے کہا کہ عسکریت نے ہر دو سے تین کلو میٹر کے فاصلے پر فراری کیمپ قائم کر رکھے تھے ،مارے جانے والے ملزمان آواران کے زلزلہ زدگان کے لئے امداد لے جانے والے قافلوں ، سیکورٹی فورسز اور تعمیراتی کمپنیوں کے عملے پر حملوں میں ملوث تھے۔آپریشن کے ردعمل کے متعلق سوال پر صوبائی وزیر داخلہ نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ عسکریت پسند اتنی استعداد رکھتے ہیں کہ ایک دن میں کسی ہائی پروفائل ٹارگٹ کی تیاری کر سکی،سبی میں جعفر ایکسپریس میں دھماکہ قلات آپریشن کا ردعمل نہیں تھا بلکہ دہشتگردوں نے اس کی پہلے سے ہی منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔ پنجگور اور آواران آپریشن کے رد عمل کے لئے تیار رہنے سے متعلق سوال پر صوبائی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ ہم حالت جنگ میں ہیں، ایسے حالات میں حملے ہوتے رہتے ہیں، عسکریت پسند حملے کریں گے تو فورسز بھی خاموش نہیں رہ سکتیں،حکومت بھی اپنی ذمہ داری پورا کرے گی کیونکہ عوام کے جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری ریاست کے ذمے ہے ، انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں چار سے پانچ بڑی علیحدگی پسند تنظیمیں کام کر رہی ہیں جن میں کالعدم بلوچ ری پبلکن آرمی، بلوچ لبریشن فرنٹ، یونائیٹڈ بلوچ آرمی، بلوچ لبریشن آرمی، لشکر بلوچستان اور ان کی ذیلی تنظیمیں ہیں اور اب مزید تنظیمیں بھی جنم لے رہی ہیں ، ان تنظیموں کو بھارتی خفیہ ادارہ ’’را‘‘ سے فنڈ ز مل رہے ہیں ،انہوں نے بتایا کہ ان تنظیموں کا ا ثر و رسوخ چھ سے سات اضلاع میں ہے جہاں یہ دھماکے کرتے ہیں اور ٹرینوں ، سرکاری املاک ، فورسز اور شہریوں پر حملوں میں ملوث ہیں ۔ صوبائی وزیر داخلہ نے کہا کہ مذاکرات کے حوالے سے حکومت کی پالیسی واضح ہے دنیا میں بڑے سے بڑے مسائل بھی مذاکرات کے ذریعے حل کئے جاتے ہیں لیکن مذاکرات کا مطلب یہ نہیں کہ اس آڑ میں بے گناہ لوگوں اور فورسز پر حملے کئے جائیں اور ہم خاموش رہے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے مسائل کے حل کو یقینی بنانے کیلئے صوبائی حکومت کو آل پارٹیز بلانے کا مینڈیٹ دیا تھا ، صوبائی کابینہ نے اس کا اختیار وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو دیا ہے وہ جب چاہیے اے پی سی بلا سکتے ہیں ،ہم جمہوری لوگ ہیں او جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں اور تمام مسائل بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں انہوں نے بتایا کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان کے پاس ہے ،ناراض بلوچ رہنماؤں سے مذاکرات شروع ہوئے یا نہیں اس بارے میں وہ ہی بہتر بتا سکتے ہیں،انہوں نے کہا کہ موجودہ دور حکومت میں صوبے میں جرائم کی شرح 30 فیصد کم ہوئی ہے ، حکومت صورتحال میں مزید بہتری لانے کی کوششیں کررہی ہیں، انہوں نے کہا کہ ہم حالت جنگ میں ہے اس لئے جرائم میں کمی بیشی آتی رہتی ہے۔