ایران کے پولیس سربراہ اسماعیل احمدی مقدم نے اعلان کیا ہے کہ عنقریب ان کا ملک پاکستان کے ساتھ سرحد سیل کرنے والا ہے ۔ ان کا خیال ہے کہ سرحد سیل کرنے سے ایرانی بلوچستان میں سیکورٹی کی صورت حال بہتر ہوجائے گی ۔ گزشتہ مہینوں جیکی گور‘ ایرانی بلوچستان سے پانچ ایرانی سرحدی محافظین کو اغواء کیا گیا تھا۔ اغواء کاروں نے یہ دعویٰ کیا کہ انہوں نے ایک سرحدی محافظ کو موت کے گھاٹ اتارا اور باقی چار کو رہا کردیا ۔ ایران کا مؤقف ہے کہ پانچواں سرحدی محافظ زندہ ہے اگر وہ ہلاک ہوجاتا تو اس کی لاش ایرانی حکومت کے حوالے کی گئی ہوتی ۔ایرانی بلوچستان میں دو دہشت گردی کے واقعات کے بعد ایران نے بہت زیادہ سخت مؤقف اپنایا ہے ۔ ایران کے مقتدر قوتوں نے اس امر کا برملا اظہار کیا ہے کہ ایران اپنے سیکورٹی کے پیش نظر اپنے سرحدات کو زیادہ محفوظ بنائے گا اور ممکن ہے کہ ان کو توسیع بھی دے گا۔ دوسرے الفاظ میں پاکستانی بلوچستان کی سرزمین ہتھیالے گا۔ یہ تمام باتیں ایرانی میڈیا کی زینت بن چکی ہیں اور کسی بھی ذمہ دار شخص نے ان اخباری اعلانات کی تردید نہیں کی ۔ تاہم گزشتہ کئی سالوں سے ایران نے بلوچستان میں انتہائی سخت سیکورٹی کے اقدامات اٹھائے ہیں جس سے سرحد کے اس پار عوام الناس میں تشویش پائی جاتی ہے ۔ ایرانی پولیس کے سربراہ کا بیان ایرانی پالیسی کی نشاندہی کرتا ہے اور ایران عنقریب بلوچستان کے ساتھ سرحد مکمل طورپر سیل کرے گا۔ دوسرے الفاظ میں ایران کے ساتھ آمد و رفت کے راستے صرف ہوائی ہوں گے۔ تفتان واحد بین الاقوامی بارڈر ہے جہاں پر پاسپورٹ اور دوسرے سفری دستاویزات کے ساتھ ایران کے ساتھ آمد و رفت ہورہی ہے ۔ یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ ایران اس کو بھی بند کر دے گا اور سڑک کے ذریعے تجارت کو بھی مکمل ختم کردے گا۔ جیش العدل یا جند اللہ نامی گمنام تنظیمیں ایران اور پاکستان کے تعلقات خراب کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ اس میں حکومت پاکستان اور بلوچ عوام کا کوئی قصور نہیں کہ ایران کی حکومت عوام الناس کو اتنی بڑی سزا دے۔ ایران کے دو وزراء بشمول وزیر داخلہ پاکستان تشریف لارہے ہیں شاید وہ حکومت پاکستان سے سیکورٹی کے معاملات پر بات چیت کریں گے ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ایرانی وزراء محض ایرانی حکومت کے فیصلے سے حکومت پاکستان کو آگاہ کریں گے کہ وہ اپنی سرحد پاکستان کے ساتھ بند کررہے ہیں ا ور دونوں ملکوں کے درمیان آمد و رفت اور سڑک کے ذریعے تجارت بند ہوگی ۔ تجارت کی بندش سے ایران کو زیادہ نقصان ہوگا کیونکہ دو طرفہ تجارت کا جھکاؤ ایران کی طرف ہے ۔ پاکستان صرف چند روایتی چیزیں بر آمد کرتا ہے ۔ ان میں چاول اور پرانے کپڑے شامل ہیں ۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ ایران کے فیصلے کا ایرانی بلوچستان کے دہشت گردی کے واقعات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایرانی حکومت کے فیصلے کا تعلق خطے کی مجموعی سیکورٹی کی صورت حال سے ہے ۔ طالبان اور حکومتی فورسز کے درمیان لڑائی میں ایران کو یہ خطرہ لاحق رہے گا کہ فرقہ پرست اور انتہا پسند ایران کا رخ کریں گے اور اس طرح سے فرقہ واریت کی یہ جنگ ایران تک پھیل سکتی ہے ۔ ایران انتہائی قریب سے افغانستان اور بھارت کے رویے کو دیکھ رہا ہے اور اس کی بنیاد پر وہ اپنے فیصلے کرے گا۔ بہر حال ایران اس خطے میں گریٹ گیم کا حصہ بننے کی کوشش کرے گااور اپنے مفادات کی نگرانی کے لئے اپنی مسلح افواج کو استعمال کرسکتا ہے۔