|

وقتِ اشاعت :   May 6 – 2014

کوئٹہ: بی ایس او(آزاد) کے چیئرمین زاہد بلوچ کے اغواء کیخلاف اور انکی بازیابی کیلئے بی ایس او(آزاد) آسٹریلیا زون کی جانب سے آسٹریلیا میں ایک احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس میں بلوچ کمیونٹی آسٹریلیا سمیت دیگر افراد نے شرکت کی مظاہرین نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اور بینرز اور اٹھائے ہوتے تھے جن پر زاہد بلوچ کے اغواء کیخلاف اور لطیف جوہر کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے مختلف نعرے درج تھے مظاہرین نے زاہد بلوچ اور لطیف جوہر کی تصاویر بھی ہاتھوں میں اٹھائی ہوئی تھیں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مظاہرین نے کہا کہ 18مارچ2014کو بی ایس او (آزاد) کے چیئرمین زاہد بلوچ کو خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے ایف سی کی مدد سے کریمہ بلوچ اور دیگر تنظیم کے دیگر تین ذمہ داران سمیت درجن بھر عام افراد کی موجودگی میں کوئٹہ کے علاقے سیٹلائٹ ٹاؤن سے اغواء کیا تھا جن کا تاحال کوئی پتہ نہیں حیرت کی بات یہ ہے کہ زاہد بلوچ کو درجن بھر افراد کی موجودگی میں اغواء کیا تھا جس کے چشم دید گواہ موجود ہیں مگر ایف سی اپنی پرانی روش کو برقرار رکھتے ہوئے زاہد بلوچ کے اغواء سے لاتعلقی کا اظہار کررہا ہے جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ایف سی اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے زاہد بلوچ کو جانی نقصان پہنچانے کا تہیہ کرلیا ہے ہمیں اس حوالے سے شدید تشویش لاحق ہے کہ کہیں دیگر بلوچ شہداء کی طرح زاہد بلوچ کو بھی کوئی جانی نقصان نہ پہنچایا جائے زاہد بلوچ کے اغواء کیخلاف اور انکی بحفاظت بازیابی کیلئے بی ایس او(آزاد) کا ایک مرکزی رہنماء لطیف جوہر گزشتہ 13دنوں سے تادمِ مرگ بھوک ہڑتال پر بیٹھا ہے جس نے اس وقت تک کچھ کھانے پینے سے انکار کردیا ہے جب تک کہ زاہد بلوچ کو یازیاب نہیں کرایا جاتا ان 13دنوں میں لطیف جوہر کی جسمانی حالت تشویشناک حد تک بگڑ چکی ہے اور اب ان کیلئے اٹھنا بیٹھا بھی سہارے کے بغیر مشکل ہوگیا ہے ان پر بار بار غشی کے دورے طاری ہونے لگتے ہیں اور ڈاکٹروں کے مطابق اس حالت میں رہنے سے اسکی زندگی کو بھی شدید خطرات لاحق ہیں زاہد بلوچ کے اغواء اور لطیف جوہر کی زندگی کو بچانے کیلئے مقامی و بین الاقومی سطح پر بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ بھی جاری ہے مگر تاحال حکام یا کسی انسانی حقوق کے ادارے نے اس طرف متوجہ ہونے کی زحمت نہیں کی ہے جو انسانی حقوق کے اداروں کی عدم دلچسپی کا ثبوت ہے حیرت کی بات ہے کہ موجود ہ جدید دور میں جہاں دنیا کتاب و قلم کی رہنمائی میں ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے مگر اپنی قوم کے نوجوانوں کو کتاب وقلم سے رغبت دلانے والے بلوچ قوم کے فرزند کو منظر عام سے غائب کردیا گیا ہے اور انکی زندگی کو بچانے کی اپیل میں دوسرا نوجوان خود موت کی جانب سفر کررہا ہے مگر تہذیب یافتہ و ترقی پسند سوچ رکھنے کے دعویدار عالمی برادری خواب خرگوش میں مبتلا ہے ہمارا انسانی حقوق کے اداروں اور دیگر جمہوری قوتوں سے پر زور مطالبہ ہے کہ وہ زاہد بلوچ کی بازیابی اور لطیف جوہر کی زندگی بچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔