|

وقتِ اشاعت :   May 6 – 2014

قاہرہ: مصر میں صدارتی انتخاب میں حصہ لینے والے سابق فیلڈ مارشل عبد الفتح السیسی نے کہا ہے کہ اگر انہیں اس انتخاب میں کامیابی مل گئی تو وہ مصر سے کالعدم تنظیم اخوان المسلمون کا وجود ہی ختم کردیں گے۔ مصر کے دو نجی ٹی وی چینلز سی بی سی اور او این ٹی وی کو پیر کو دیے گئے اپنے پہلے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ان کے قتل کی دو کوششیں ناکام ہوچکی ہیں۔ جمہوری طور پر منتخب ہونے والے مصر کے پہلے صدر محمد مورسی کو فتح السیسی نے گزشتہ سال جولائی میں ان کے عہدے سےمعزول کر دیا تھا۔ اس مہینے کی چھبیس اور ستائیس تاریخ کو منعقد ہونے والے مجوزہ صدارتی انتخابات میں ان کی کامیابی کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔ السیسی نے اس بات سے انکار کیا کہ جب انہوں نے مورسی کو معزول کر دیا اور اخوان المسلمون کے خلاف کارروائی شروع کی تو ان کے کوئی سیاسی عزائم تھے۔ ان کے الفاظ تھے کہ ’’میں آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں نے اس کا (اخوان المسلمون کا ) صفایا نہیں کیا ، یہ مصر کے عوام نے ہی کیا ہے۔‘‘ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا محض ان کے صدر بننے سے ہی اخوان المسلمون کا وجود ختم ہو جائے گا، تو مصر کے سابق آرمی چیف نے جواب دیا ’’ہاں، یہی درست ہے۔‘‘ عبدالفتاح السیسی نے مذہبی نعرے بازی کو ملک کی سیاحت کی صنعت کے زوال کا ذمہ دار ٹھہرایا اور کہا کہ مذہبی بیان بازی سے اس صنعت پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ فیلڈ مارشل السیسی کا کہنا تھا کہ ’’سیاحت کے فروغ سے لوگوں کو روزگار کے مواقع حاصل ہوں گے، اور ہمیں مصر میں اس سے متعلق شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘ السیسی کا کہنا تھا کہ ’’اقتدار کے لیے قوت اللہ کی طرف سے آتی ہے اور اللہ اس کو واپس بھی لے سکتا ہے۔‘‘ عبدالفتاح السیسی اور ان کے واحد حریف صدارتی امیدوار حمدین صباحی نے ہفتے کے روز اپنی اپنی انتخابی مہم شروع کی ہے۔ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے صباحی نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ اگر وہ ملک کے صدر منتخب ہوگئے تو وہ فوج کو سیاست میں مداخلت سے دور رکھیں گے۔ وہ موجودہ عبوری حکومت کے جاری کردہ ایک متنازعہ قانون کا خاتمہ بھی چاہتے ہیں جس کے تحت پولیس کی پیشگی اجازت کے بغیر احتجاجی مظاہروں پر پابندی ہے اور گزشتہ سال کے آخر میں اس قانون کے نفاذ کے بعد ہزاروں کی تعداد میں سیاسی کارکنان کو احتجاجی مظاہروں میں حصہ لینے کے جرم میں پکڑ کر حوالات میں بند جاچکا ہے۔ دوسری جانب اخوان المسلمون کے اندرونی اختلافات اب بند کمروں کے اجلاس سے نکل کر میڈیا کہ شہ سرخیوں کا موضوع بننے لگے ہیں۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ کی رپورٹ کے مطابق ترکی کے ثقافتی صدر مقام استنبول میں اخوان المسلمون کی عالمی تنظیم کی قیادت کے حالیہ اجلاس میں پیدا ہونے والے اختلافات اس وقت سامنے آئے جب تیونس کی حکمران جماعت کے سربراہ راشد الغنوشی نے ترک وزیر اعظم رجب طیب ایردوآن کی جانب سے ان کے تبصرے سے صرف نظر کی کوشش کی۔ یاد رہے کہ راشد الغنوشی نے اجلاس میں مصر کی اخوان المسلمون پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنی ’بچکانہ حرکتوں سے ایک اہم عرب ملک میں اقتدار کھو دیا۔‘