|

وقتِ اشاعت :   May 7 – 2014

آفات قدرت کی طرف سے آتے ہیں۔ لیکن ان قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے اور نقصانات کو کم رکھنے کے لئے مؤثر پلاننگ کی ضرورت ہوتی ہے۔ گزشتہ روز افغانستان کے شمالی علاقے میں مٹی کا تودہ گرنے سے 2000سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ قیمتی جانوں کے نقصان کے علاوہ فصل، مال مویشی، املاک کا نقصان بھی بہت اہم ہوتا ہے۔ دیگر ممالک میں دیکھا جائے تو قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے ادارے قائم ہیں اور ادارے ہی ان قدرتی آفات اور ممکنہ خطرات سے لوگوں کو آگاہ کرتے ہیں۔ لیکن ہمارے ملک پاکستان میں ایسا کہیں بھی آپکو دیکھنے کو نہیں ملتا۔ جس حکومت کے جی میں جو کچھ آئے کر ڈالے۔ گڈانی میں ایک بہت بڑا حادثہ مسافر بس اور تیل بردار گاڑیوں کے درمیان پیش آیا جس میں 50سے زائد افراد جھلس کر مر گئے۔ واقعے کے بعد مختلف ادارے حرکت میں آگئے اور ایک دوسرے پر الزامات لگاتے دکھائی دیتے رہے۔ کوئی نیشنل ہائی وے تو کوئی کوچز مالکان، تو کوئی ڈرائیور کی غفلت، تو کوئی انتظامیہ کو اسکا ذمہ دار ٹھہرانے لگا۔ الغرض ہر کوئی جان چھڑانے اور واقعے کو پس پشت ڈالنے کی کوششوں میں مصروف عمل تھا۔ بڑی عجیب شے ہے یہ دنیا جہاں دن دیہاڈے کیسے کیسے جرائم پیش کیے جاتے ہیں لیکن انکا سد باب حکومتی اداروں کے پاس ہے نہ ہی دیگر غیر سرکاری اداروں کے پاس۔ پوچھو تو بتایا جاتاہے کہ پیٹ کا پوجا کرنا ہے۔ ارے ظالمو۔ تم لوگ تو اپنا پیٹ پوجا کرتے ہولیکن اسی سے اگر کسی کی جان چلی جائے تو کون ذمہ دار اور قیامت کے عذاب کو جھیلنے کے لئے کون تیار۔ پولیس کا پیٹ دیکھو تو حرام کی کمائی سے بھرا ہوا۔ خیر کیا کریں اگر کسی سے بھی پوچھو تو یہی جواب آتا ہے کہ بھائی یہ ملک ہی ایسا ہے ہم کیا کریں۔ ارے بھائی میرے اس ملک کو کس نے لوٹا ہے آخر کب تک لوٹتے رہیں گے۔ بڑے داستان ہیں جنہیں سناتے سناتے اور سنتے سنتے ہم تھک جائیں گے لیکن ہم پر مسلط حاکم ان چیزوں پر کان نہیں دھرتے۔ خیر اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ ضلع آواران تاریخ کے مختلف ادوار میں قدرتی آفات کا سامنا کر رہا ہے اور سب سے بڑا قدرتی آفت زلزلے کی صورت میں 24ستمبر2013 ء میں نازل ہوئی ۔ جو بہت کچھ اپنے ساتھ بہا کر لے گیا اور پورا آواران تباہی کا منظر پیش کرنے لگا۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ حکومت وقت آواران شہر کے لئے پلاننگ کرتی اور مؤثر پلاننگ کرتی کہ علاقے میں آنے والے قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے کوششیں بروئے کار لائے جاتے لیکن تاحال ایسا کچھ ہوتا ہوا عملی صورت میں دکھائی نہیں دیتا۔ ایک تو قصور ہم عوام اپنا سمجھتے ہیں کہ ہم اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرنے سے قاصر ہیں دوسرا حکومت وقت اور ضلعی انتظامیہ جس کے کان پر جوئیں نہیں رینگتے کہ آواران شہر میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے کوئی اہم اقدامات اٹھائے۔ جناب نواز شریف صاحب نے آواران کو ماڈل ضلع کی حیثیت دلانے کا وعدہ تو آواران آمد کے موقع پر کیا لیکن شاید جناب والا آپکو یہ پتہ نہیں کہ صرف باتیں کرنے سے کوئی تبدیلی نہیں آئے گی اگر تبدیلی آئے گی تو عملی اقدامات سے۔ آواران میں قدرتی آفات کے حوالے سے علاقے کے معتبر شخصیت میر عبدالرشید کہتے ہیں’’ آواران میں مختلف ادوار میں مختلف قسم کے قدرتی آفات آئے اورعلاقے کو ان قدرتی آفات سے بے حد نقصان پہنچا۔ اگست1944ء میں آواران میں سیلاب آیا۔ سیلاب نے آباد زمینوں کو بنجر کر کے رکھ دیا۔ گھر گر گئے اور فصلیں تباہ ہو گئیں اور علاقے کے لوگوں نے اپنی زندگی بچانے کے لئے آواران ہیڈ کوارٹر کا رخ کیا اور یہ علاقہ آج ہار بازار کہلاتا ہے۔ ہار بلوچی زبان کا لفظ ہے۔ جسکا مطلب ہے سیلاب۔ یعنی سیلاب متاثرین کا بازار اس سیلاب سے کئی علاقے صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔پھر 1956ء کو ایک اور طوفان آگیا گوکہ گزشتہ طوفان (سیلاب ) سے کم تھا لیکن اس نے بھی علاقے کو مکمل تباہی سے دوچار کر دیا۔ 1975ء کو طوفانی بارشوں کے نتیجے میں فصلوں کو نقصان اور زمینوں کی کٹاؤ کی صورت میں ہوا۔ جس سے علاقے کے لوگوں کی معیشت بیٹھ گئی۔ فروری2005ء کو ایک طوفانی سیلاب آیا اور سیلاب کا پانی نیابت، بازار، ماشی، قاسمی جو اور دیگر کئی علاقوں کی آبادی میں داخل ہوگیا اور آبادی کو نقصان پہنچایا۔ جون 2007ء کو ایک اور سیلاب آیا جس نے علاقے میں فصلات کو نقصان پہنچایا، سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئیں۔ اور مواصلاتی نظام کٹ کر رہ گیا۔ اور 24ستمبر 2013ء کے زلزلے نے علاقے کو مکمل طور پر تباہ کر دیا اور 1ہزار سے زائد جانوں کا نقصان ہوا۔ جو آواران کی تاریخ کی سب سے بڑی تباہ کن قدرتی آفت تھی۔‘‘ آواران میں زلزلہ آنے کے بعد قیامت جیسی صورتحال تھی اور فون سروس منقطع ہونے کی وجہ سے لوگ اپنے پیاروں کو تلاش کرتے دکھائی دےئے مگر ضلعی انتظامیہ کی جانب سے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے جا رہے تھے۔ اسکی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم اکثر چیزیں واقعہ ہونے کے بعد سوچتے ہیں اور یہی آواران زلزلے کے بعد دکھائی دے رہا تھا کہ ہماری انتظامیہ انتہائی بے بسی کا شکار تھی۔ ظلم کی ایک انتہاء تو یہ تھی کہ پورے ڈسٹرکٹ میں ایک ہی ایمبولینس موجود تھی وہ بھی ناکارہ۔ اگر شاید ہمارے پاس وسائل ہوتے، ڈاکٹروں کی تعداد زیادہ ہوتی، ہمارے پاس ایمبولینس گاڑیاں اور ان میں سہولیات ہوتیں تو شاید جانوں کے ضیاع کو کم کیا جاسکتا تھا لیکن پھر بھی ہم اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہو کر یہی رونا روتے ہیں کہ جی قدرتی آفات اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں ہم کیا کر سکتے ہیں۔ ارے بھائی قدرتی آفات بے شک اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں لیکن اسکے نتیجے میں نقصانات کو کم کرنے کے لئے ادارے تو موجود ہیں۔ جو آفت کے نتیجے میں نقصانات میں کمی تو لا سکتے ہیں۔ اسکی مثال یوں لے سکتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی حادثے میں زخمی ہوا ہے اگر آپ اسے دو گھنٹے ایسے ہی زمین پر چھوڑ دیں اور پھر لے جائیں تو یقیناًدو گھنٹے میں خون بہنے کی وجہ سے اسکی موت ہی واقع ہوگی۔ ہاں اگر اسی زخمی شخص کو فوراً ہسپتال پہنچائیں تو اسکے بچنے کے چانسز زیادہ ہوں گے۔ اگر آواران کی حالت کوئی بھی باہر سے آیا ہوا شخص دیکھے تو اسے ترس آتا ہے۔ کہ اس ڈسٹرکٹ میں روزمرہ کے مسائل جو انسانوں سے سرزد ہوتے ہیں ان سے نمٹنے کے لئے کوئی آلات یا انتظام موجود نہیں تو قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے کہاں سے پیدا ہوں گی۔ آپ جہاں بھی جائیں تو آپکو فائر برگیڈ، ایدھی سینٹر، 24گھنٹے کھلے ہوئے ملیں گے۔ ہسپتال یا کلینک، ایمبولینس سروس، کمیونیکیشن کے لئے موبائل سروسز، ابتدائی تعلیم کے لئے پرائیوٹ سینٹرز وغیرہ تو موجود ملیں گے لیکن یہاں آواران میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ گو کہ آواران میں گزشتہ ادوار میں کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی لیکن اب اسکی بہت زیادہ ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔ قدرتی آفات کے بعد آنے والے مسائل سے نمٹنے کے لئے حکومت کو بہت سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس زلزلے میں دیکھا گیا کہ یہاں کے مقامی نوجوان جنکی ڈیزاسٹر کے حوالے سے تربیت نہ ہونے کی وجہ سے اپنا کردار بخوبی نہ ادانہ کر سکے۔ حکومت کو چاہئے کہ اس شعبے پر کام کرنے کے لئے نوجوانوں کے لئے بہتر تربیت کا انتظام کرے۔ سیلاب کے آنے کی وجہ سے زمینوں کی کٹاؤ ہو گئی ہے جس سے یہاں کے زمیندار انتہائی پریشان دکھائی دیتے ہیں ان مسائل کو سنجیدگی سے لے کر اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ ادوار میں عوامی بجٹ کو کرپشن کی نظر کی گئی اور مختلف من پسند لوگوں کو نوازنے کا کام کیا گیا۔ خدارا ان غلطیوں کو بار بار نہ دہرائی جائے۔کچھ ایسی آفتیں بھی ڈسٹرکٹ کی سطح پر جنم لے رہی ہیں جنکا قدرت کی طرف سے کوئی عمل دخل نہیں البتہ ان آفات کو پھیلانے میں انسانی کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ آواران شہر میں پلاننگ نہ ہونے کی وجہ سے گلی گلی گندگی کے ڈھیرنظر آتے ہیں اور نالیوں کا گندہ پانی پورے علاقے میں تعفن پھیلانے کا سبب بن رہا ہے اور اسپرے نہ ہونے کی وجہ سے مچھروں کی بھر مار ہوگئی ہے جس سے لوگ ملیریا ، ہیپٹائٹس اور دیگر موذی امراض کا شکار ہو رہے ہیں۔ گو کہ زلزلے کے بعد حکومت کی جانب سے دعوے تو کئے جا رہے ہیں مگر اسکا عملی مظاہرہ گراؤنڈ پر دکھائی نہیں دیتا۔ قدرتی آفات کے نتیجے میں زیر زمین پانی کی سطح انتہائی نیچے چلا گیا ہے۔ پانی کی قلت پر قابوپانے کے لیے علاقے میں ڈیم بنانا ناگزیر ہو چکا ہے۔ آج آواران اس انتظار میں ہے کہ حکومت کب اپنے وعدے پورے کرے گی تاکہ یہاں کے لوگ اس کو اچھے لفظوں میں یاد رکھ سکیں۔