|

وقتِ اشاعت :   May 7 – 2014

کوئٹہ : بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن ( آزاد) کے پر امن احتجاجوں کا سلسلہ آج پندرویں روز میں داخل ہوگئی ، بلوچستان کے مختلف علاقوں میں احتجاجی مظاہروں ، لندن میں علامتی بھوک ہڑتال ، آسٹریلیا میں احتجاجی مظاہرے کے ساتھ ساتھ کراچی پریس کلب کے سامنے تادم مرگ بھوک ہڑتالی کیمپ آج پندرھویں دن میں داخل ہوگئی ۔ یاد رہے کہ15 دن پہلے بی ایس او ( آزاد) کے قائم مقام چیئرمین بانک کریمہ بلوچ نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے یہ بات منظرِ عام پر لایا تھا کہ 18 مارچ 2014 کو پاکستانی خفیہ اداروں نے ایف سی کی مدد سے کوئٹہ کے علاقے سیٹلائیٹ ٹاون سے بی ایس او ( آزاد) کے مرکزی چیئرمین زاہد بلوچ کو مبینہ طور پر اغواء کرکے لاپتہ کردیا ہے اس کے ساتھ ہی بی ایس او ( آزاد) نے احتجاجوں کا ایک سلسلہ شروع کردیا جس کا آغاز بی ایس او ( آزاد) کے مرکزی کمیٹی کے رکن لطیف جوہر بلوچ نے تادم مرگ بھوک ہڑتال پر کراچی پریس کلب کے سامنے بیٹھنے سے کردیا ۔ لطیف جوہر بلوچ گذشتہ 14 دن سے تادم مرگ بھوک ہڑتال پر بیٹھے ہوئے ہیں ، ان کی طبیعت روز بروز بگڑتی جارہی ہے ، مسلسل گرتی صحت اور وزن کی وجہ سے وہ انتہائی نحیف ہوچکے ہیں جس کی وجہ سے ڈاکٹر ز سمیت مختلف طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے ہمدردوں نے اسے بھوک ہڑتال ختم کرنے کی اپیل کی ہے لیکن لطیف بلوچ مسلسل یہ کہتے ہوئے انکار کر رہے ہیں کہ جب تک کہ زاہد بلوچ کو منظر عام پر نہیں لایا جاتا تب تک وہ اس احتجاجی سلسلے کو منقطع نہیں کریں گے اور یہ تادم مرگ بھوک ہڑتال جاری رہے گی ۔ گذشتہ دن پولیس نے جب اس بھوک ہڑتالی احتجاجی کیمپ پر بلا اشتعال فائرنگ اور آنسو گیس کی شلینگ کی تھی اس سے لطیف بلوچ کی طبیعت مزید ناساز ہوگئی ہے۔ خوراک کی کمی کی وجہ سے اب اس کے جسمانی اعضاء روز بروز کمزور ہوتے جارہے ہیں جس کی وجہ سے ڈاکٹر اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ وہ کسی بھی پل انتہائی سنجیدہ حالت میں جاسکتے ہیں۔ کیمپ میں بیٹھے ہمدردوں اور لواحقین پر آنسو گیس کے شیلنگ اور انہیں زخمی کرکے حراساں کرنے کے باوجود اظہارِ یکجہتی کرنے والوں کی آمد کا سلسلہ آج پندرھویں روز بھی جاری رہی ۔ اظہارِ یکجہتی کیلئے آنے والوں میں پاکستان یوتھ الائنس کے قائد اور بانی نور مریم ،نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے نمائیندگان ، لاہور سے یکجہتی کیلئے آنے والے مزدور کسان پارٹی کے نمائیندگان اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے فرزانہ مجید بلوچ سمیت کثیر تعداد میں لاپتہ افراد کے لواحقین اور بلوچستان کے دور دراز علاقوں سے آئے ہوئے خواتین و بچے شامل تھے ۔ اس موقع پر اظہارِ یکجہتی کرنے والوں نے زاہد بلوچ کی اغواء نما گرفتاری اور بی ایس او ( آزاد) کے احتجاجی کیمپ پر شیلنگ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ طلبہ پر ایک طرف سے اغواء و گرفتاریوں اور تعلیمی اداروں پر مسلسل چھاپوں کی وجہ سے تعلیم کے تمام دروازے بند کیئے جارہے ہیں ، طلبہ رہنماوں کو شہید کیا جارہا ہے اور دوسری طرف جب ان مظالم کے خلاف پر امن طریقہ سے اور جمہوری اصولوں کے مطابق احتجاج کیا جاتا ہے تو پھر ایسے بزدلانہ اور اوچھے ہتھکنڈوں سے انہیں خاموش کرانے کی کوشش کی جاتی ہے ، یہ انسانی حقوق کے مسلمہ اصولوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے ، 21 ویں صدی میں جہاں پوری دنیا میں غلامی ، آمریت اور تمام استبدادی سوچوں کو مسترد کیا جارہا ہے اور انسانیت کے بول بالائی کیلئے شبینہ روز کاوشیں جاری ہیں وہیں دنیا کے اس خطے بلوچستان میں جنرل پنوشے اور عیدی امین کے دور جیسے انسانیت سوز واقعات روز وقوع پذیر ہورہے ہیں لیکن عالمی طاقتوں اور اداروں کی مسلسل چشم پوشی انتہائی قابلِ افسوس امر ہے۔ اس موقع پر ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے ایک وفد نے بھی کیمپ کا دورہ کیااور لطیف جوہر بلوچ سے ملاقات کے دوران ان سے اپنے تنظیم کی طرف سے اپیل کی کہ وہ اپنے تادم مرگ بھوک ہڑتالی احتجاج کو ختم کرکے کچھ کھالیں لیکن لطیف جوہر بلوچ نے اس اپیل کو مسترد کرتے ہوئے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان سے درخواست کی کے وہ زاہد بلوچ کی اغواء نما گرفتاری اور بلوچستان میں روز افزوں بڑھتے ہوئے انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف فیصلہ کن اقدامات کریں ۔