اگلے چند دنوں میں وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف ایران کا دورہ کرنے والے ہیں ۔ ان کا دورہ ایران خصوصی اہمیت کا حامل ہوگا اعلیٰ ترین ایرانی حکام سرحدی محافظین کے اغواء کے معاملے کو ایک سنگین مسئلہ سمجھتے ہیں اور پاکستان سے زیادہ بہتر تعاون کی توقع رکھتے ہیں کہ پاکستان پانچویں مغوی کو بھی بازیاب کرائے گا۔ آج تک یہ معمہ حل نہیں ہوا کہ باقی چار سرحدی محافظین کیسے رہا ہوئے ۔ اس میں حکومت پاکستان کا کیا کردار تھا یہ واضح نہیں ہے ۔ البتہ پاکستان کے ساتھ سرحدی علاقوں میں سیکورٹی کی صورت حال سے ایرانی بہت زیادہ پریشان ہیں اوروہ پاکستانی وزیراعظم اور ان کے وفد سے اس معاملے پرتفصیلی بات چیت کریں گے جس میں شاید ایران‘ پاکستان سرحد سیل کرنا بھی شامل ہے ۔ حکومت پاکستان کا رد عمل ابھی تک سامنے نہیں آیا ویسے بھی وفاقی حکومت بلوچستان کے معاملات کو اہمیت ہی نہیں دیتا یا کم اہمیت دیتا ہے ۔ ایران پاکستان کے ساتھ اپنا سرحد سیل کرتا ہے کرے، اسلام آباد کی بلا سے ،ا ن پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اگر ایران تجارت بھی بند کرتا ہے تو اس میں ایران کا نقصان ہے ان معاملات کے علاوہ حکومت پاکستان کو ایران کی جانب سے یہ پیش کش کی گئی تھی کہ ایران گیس پائپ لائن بچھائے گا اور اسکے لئے پچاس کروڑ ڈالر قرضے کا بھی اعلان کیا مگر حکومت پاکستان نے اس کو رد کردیا ۔ آئندہ دس سالوں میں اس بات کی امید نظر نہیں آتی کہ ایران ‘ پاکستان گیس پائپ لائن تعمیر ہوگی ۔ایک اور مسئلہ ایران سے بجلی خریدنے کا ہے ۔ 15سالوں بعد وفاقی حکومت نے یہ عندیہ دیا ہے کہ وہ ایران سے دو ہزار میگا واٹ بجلی خریدنے میں دل چسپی رکھتا ہے ۔ اس کے علاوہ سو میگا واٹ بجلی الگ سے گوادر کے لئے ایران سے خریدی جائے گی ۔ ایران ایک لاکھ چوبیس ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرتا ہے اور خطے کے آٹھ ممالک کو بجلی برآمد کرتا ہے ۔ اس میں ستر میگا واٹ بجلی مکران کیلئے بھی شامل ہے ۔ ایران پاکستان گیس پائپ لائن پر کسی پیش رفت کی توقع نہیں ہے ۔ البتہ بجلی کی خریداری اس بار ضرور ہوگی اور یہ بجلی بلوچستان سے گزر کر ملک کے دوسرے حصوں میں جائے گی۔ نواز شریف اپنے دورے کے دوران صدر رو حانی اور ایرانی رہبر سے بھی ملاقات کریں گے اور توقع ہے کہ وہ پاکستان کے ایران کے ساتھ تعلقات کو زیادہ مضبوط اور مستحکم بنانے کی بات کریں گے۔ وہ اس بات کی وضاحت کریں گے کہ سعودی عرب کی وجہ سے ایران سے تعلقات میں کشیدگی نہیں آئے گی اور دونوں ممالک کے درمیان معمول کے تعلقات بحال رہیں گے۔ نواز شریف شام سے متعلق اپنی حکومت کی پالیسی کی وضاحت کریں گے اور ایرانی رہنماؤں کو یہ بتائیں گے کہ شام سے متعلق پاکستان کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ۔ شام کے تنازعہ میں حکومت پاکستان کے من پسند فورسز نہیں ہیں ۔ پاکستان اس تنازعے کا پر امن تصفیہ چاہتا ہے ۔ ایران ‘ پاکستان کے لئے انتہائی اہم ملک ہے اس کی سرحد یں پاکستان اور افغانستان سے ملتی ہیں ا ور پاکستان افغان تنازعے میں ایران کا ایک مثبت کردار دیکھنا چاہتا ہے تاکہ پورے خطے میں مکمل امن ہو خصوصاً بیرونی افواج کی افغانستان سے واپسی کے بعد۔ شاید پاکستانی وزیراعظم افغانستان کے معاملے میں ایرانی رہنماؤں سے تفصیلی بات چیت کریں گے اور کوشش کریں گے کہ دونوں ملکوں کا لائحہ عمل مشترکہ ہو تاکہ خطے میں امن کو یقینی بنایا جائے جاسکے ۔ افغانستان پر ایران کا زبردست اثر ورسوخ ہے اور ایران حامد کرزئی کی معاشی مدد بھی کرتا رہا ہے ۔ واپس ملک جاتے ہوئے ایرانی حکام نے حامد کرزئی کو نوٹوں سے بھرا سوٹ کیس جہاز میں تھما دیا تھا۔ اسی طرح ایران کا شمالی اتحاد اور اسکے رہنماؤں پر بہت زیادہ اثر ورسوخ ہے اور اکثر رہنماء جلا وطنی کے دور میں ایران میں رہے اور ایران کی مدد حاصل کرتے رہے ۔ بہر حال نواز شریف کا ایران کا دورہ تاریخی نوعیت کا ثابت ہوسکتا ہے ۔ اور نواز شریف کی کوشش یہ ہونی چائیے کہ وہ ایران کو اس معاملے پر قائل کریں کہ وہ پاکستان کے ساتھ اپنا سرحد سیل نہ کرے