شاید پہلی بار بلوچستان میں بجٹ کی تیاریوں کو سنجیدگی سے لیا جارہا ہے ۔ اس سلسلے میں کوئٹہ میں ایک سیمینار منعقد ہوا جس میں مقررین نے مختلف تجاویز پیش کیں ۔ اور یہ توقع ظاہر کی کہ نیا بجٹ بلوچستان کے معاشی جغرافیہ کو تبدیل کر دے گا۔ گزشتہ چالیس سالوں سے روایتی بجٹ پیش کیا جاتا رہا ہے اور اس کو من و عن اسمبلی سے پاس کرا لیا جاتا ہے ۔ وزراء اور صوبائی اسمبلی کے ارکان کی عمومی دل چسپی ترقیاتی بجٹ اور خصوصاًان کے ذاتی اور انفرادی اسکیموں پر ہوتی تھیں ۔ عام بحث میں لوگوں کے مسائل ، غیر ترقیاتی بجٹ کا تذکرہ تک نہیں ہوتا تھا۔ دوسرے الفاظ میں بلوچستان میں صرف پی ایس ڈی پیPSDPکی سیاست کی جاتی تھی ہر رکن اسمبلی اٹھ کر ذاتی شکایات لے کر بیٹھ جاتا تھا اور دعویٰ کرتا تھا کہ اس کے ساتھ انصاف نہیں ہوا ۔ دوسری جانب اسکیموں کی منظوری کے لئے جو دستاویزات کی ضرورت ہوتی تھی اس کو فٹ پاتھ پر بیٹھنے والے کاری گر ، کٹ اور پیسٹ ،، کرکے ضروریات پوری کرتے تھے ۔ اس دور میں منصوبہ بندی اور ترقی کے محکمے میں اس قسم کے دستاویزات کی شدید طلب ہے کیونکہ ان کے پاس فنڈ بہت ہیں ، دستاویزات مکمل نہیں ۔ موجودہ صورت حال کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے ۔ پرانے زمانے کا تسلسل ہے اس کو فوری طورپر بند ہونا چائیے۔ یہ بات واضح ہونی چائیے کہ آئندہ آنے والے وقت میں بہت زیادہ سخت احتساب ہوگا جس سے کرپٹ اور بے ایمان افراد کو پریشانی اور پشیمانی کا سامنا کرنا پڑ ے گا ۔ جہاں تک صوبائی بجٹ کا تعلق ہے۔ اجلاس کی یہ رائے خوش آئند ہے کہ ترقیاتی اور غیر ترقیاتی اخراجات میں فرق کم ہونا چائیے ۔ اب تک حکومتیں 155ارب روپے غیر ترقیاتی اخراجات اور ترقیاتی کے مدمیں صرف چالیس ارب سے 45ارب روپے خرچ کرتی رہی ہیں ۔گزشتہ چار دہائیوں میں سالانہ ترقیاتی پروگرام مکمل طورپر ناکام ہوگئے ہیں ۔ وزراء اور ارکان اسمبلی نے اپنے اسکیم فروخت کیے تھے جو انسانیت کے خلاف سنگین جرم ہے ۔ اس مرتبہ تو قطعاً بجٹ میں انفرادی اور ذاتی اسکیموں کو شامل نہ کیاجائے ۔ صرف اجتماعی اسکیموں کو شامل کیا جائے ۔ گزشتہ چالیس سالوں میں کسی ایک قابل ذکر اسکیم کی نشاندہی کوئی نہیں کرسکتا ۔ چالیس سالوں میں جتنی رقم ان اسکیموں پر خرچ کی گئی وہ مکمل طورپر ضائع ہوگئی ۔ اب مزید وسائل کو ضائع نہ کیاجائے تعلیم ، صحت ، سماجی معاملات کی اسکیموں کو اولیت دی جائے تاکہ طلبہ کو تسلسل کے ساتھ تعلیم جاری رکھنے کی سہولیات فراہم ہوں ۔ ایک ماسٹر ایک اسکول کانظام ختم ہونا چائیے ۔ اس کی جگہ پر رہائش اسکول بنائے جائیں اور وہاں معیاری تعلیم دی جائے۔ اسی طرح معاشی اسکیم بنائی جائیں جہاں نہ صرف لوگوں کو ملازمتیں فراہم ہوں بلکہ اس سے ریاست کی آمدنی میں بھی اضافہ ہو۔ زیادہ سے زیادہ اسکیمیں زراعت ، گلہ بانی ، معدنیات اورماہی گیری کے شعبوں کی ترقی کے لیے بنائی جائے ۔ کیونکہ آبادی کا سب سے بڑا حصہ ان شعبوں سے تعلق رکھتا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ بنیادی معاشی ڈھانچہ کو تعمیر کیاجائے تاکہ آئندہ ترقی کی رفتار تیز تر ہو ۔ وفاق سے کہا جائے کہ وہ تمام منصوبے جلد سے جلد مکمل کرے جن کا تعلق بلوچستان کے معاشی ڈھانچے سے ہے ۔ صوبائی حکومت اور ارکان اسمبلی مہربانی فرما کر گٹر اسکیم مقامی کونسلوں کے حوالے کریں اور خود معاشی اسکیموں پر نہ صرف توجہ دیں بلکہ صرف انہی اسکیموں کیلئے فنڈ مختص کریں ۔ ذاتی اور انفرادی اسکیموں کیلئے نہیں ۔جہاں تک غیر ترقیاتی اخراجات کا تعلق ہے اس میں کمی کی بہت زیادہ گنجائش موجود ہے اور اس میں زبردست کمی بھی کی جائے ۔ وزراء کے فوج ظفرموج میں کمی کے بعد ان خدمت گاروں کے فوج میں بھی کمی کی جائے جو وزراء کے ساتھ ہیں ۔ اضافی ملازموں کو فارغ کیا جائے کیونکہ سینکڑوں ملازمین کو وزراء نے صرف سیاسی بنیادوں پر ملازمتیں فراہم کی تھیں ۔ واسا میں پچاس افراد کی ضرورت تھی تو دوردراز دیہاتوں سے 800افراد بھرتی کئے گئے حالانکہ وزراء کو یہ معلوم تھا کہ ان کی تنخواہیں ادا کرنا ادارے کی ذمہ داری ہے صوبائی حکومت کی نہیں ۔ آئے دن وہ سڑکیں بلاک کرتے ہیں اور تنخواہوں کا مطالبہ حکومت سے کرتے ہیں ان وزراء سے نہیں جنہوں نے ان کو غیر قانونی طورپر بھرتی کیاتھا اور قانون کی خلاف ورزی کی تھی۔ واسا ملازمین کو چائیے کہ وہ ان وزراء سے اپنی تنخواہوں کا مطالبہ کریں ۔