کہنے کو تو کراچی پریس کلب قلم کے مزدوروں کی فلاح وبہبود اور انہیں درپیش مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے بنایا گیا ایک ادارہ ہے، مگر وقت گزرنے کے ساتھ یہ غریب، مظلوم ، مجبوراور بے آسرا لوگوں کی آواز کو وقت کے حکمرانوں تک پہنچانے کا ذریعہ بھی بن گیا۔پریس کلب کے اندر اور اس کے سامنے آئے دن پریس کانفرنسوں کا بھی اہتمام ہوتا ہے ، جلسے اور جلوس بھی منعقد ہوتے ہیں، احتجاجی مظاہرے بھی کیے جاتے ہیں اور احتجاجی و بھوک ہڑتالی کیمپ بھی لگائے جاتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ کراچی کے علاقے صدر کا ریگل چوک احتجاجی مظاہرے کرنے والوں کی محبوب جگہ اور جلسے جلوسوں کا مرکز ہوا کرتا تھا مگر وقت کے ساتھ کراچی پریس کلب نے اب اس کی جگہ لے لی ہے، آئے دن صبح سے شام گئے تک لوگوں کی آمد اور روانگی کا سلسلہ جاری رہتا ہے تاہم کبھی کبھار کچھ لوگ مطالبات کے حق میں احتجاج اور بھوک ہڑتال کا اعلان کرکے یہاں ڈھیرے ڈال دیتے ہیں، اور گذشتہ کچھ عرصے سے یہی ہوتا آرہا ہے۔ ان دنوں پریس کلب کے سامنے ایک اور بھوک ہڑتالی کیمپ لگایا گیاہے ۔اس بار یہ کیمپ ایک طلبہ تنظیم بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائیزیشن بی ایس او آزاد کی جانب سے لگایا گیا ہے۔ دو ہفتے قبل لگائے گئے اس بھوک ہڑتالی کیمپ میں بی ایس او کے جواں سال رہنماء لطیف جوہر اپنی تنظیم کے دن دہاڑے اٹھاکر لے جانے والے چئیرمین زاہد بلوچ کی رہائی کے لیے بھوک ہڑتال پر بیٹھے ہوئے ہیں۔لطیف جوہر کے ساتھی اس کا حوصلہ بڑھانے اور اسے پرعزم رکھنے کے لیے موجود ہیں۔ بھوک ہڑتالی کیمپ کا لگنا تھا کہ مٹر گشت کرنے والوں ، خبروں کی تلاش پر مامورخبریوں اور فوٹو سیشن کی غرض سے احتجاجی مظاہروں یا بھوک ہڑتالی کیمپوں میں شرکت کرنے والے شکاریوں کی گویا چاندی ہوگئی۔غرض کچھ دن ہلا گلا ہوگا اور پھر وہی ہوگا جو ماضی میں ہوتا رہا ہے، یعنی بھوک ہڑتالی کیمپ کے شرکاء ہوں گے اور اس کیمپ کی رپورٹ کرنے والے خبری۔ نہ میڈیا ہوگا،،،چند ایک کو چھوڑ کر،،،،، اور نہ ہی قومی میڈیا کے صحافی، اور نہ ہی ہمت اور ڈھارس بندھانے والے لوگ۔ ہوں گے تو صرف لاپتہ افراد کے لوا حقین اور ان کے چند قریبی ساتھی۔ ابھی چند عرصے قبل تک وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے کوئٹہ سے اسلام آباد تک لانگ مارچ سے قبل کراچی پریس کلب پر ایک طویل عرصے تک لگایا جانے والا بھوک ہڑتالی کیمپ روزانہ کی بنیاد پر لوگوں کے منہ چڑاتا تھا ، شروع شروع میں لوگ بڑی تعداد میں اظہار یکجہتی کی خاطر کیمپ کا دورہ بھی کرتے تھے اور صحافی حضرات بھی کیمپ آکر لوگوں سے ملتے اور ان بھوک ہڑتال کرنے والوں کی خبریں بنا کر اپنے دفاتر میں جمع بھی کرادیتے تھے۔ کچھ دوستوں کی خبریں سنسر کے بعد شائع بھی ہوجایا کرتی تھیں اور کچھ کی ردی کی نظر ہوجاتی تھیں، بھوک ہڑتالی کیمپ کا دورانیہ بڑھتا گیا، لوگوں اور صحافیوں کی دلچسپی بھی کم ہوگئی، کیوں نہ ہوتی مسئلہ بلوچستان کے لاپتہ افراد کا تھا، الزام بھی خفیہ ایجنسیوں پر تھا، کیا فرق پڑتا ہے کہ اگر سپریم کورٹ نے ایف سی اور دیگر حساس اداروں کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔۔اور ہاں قومی میڈیا کا بلوچستان سے کیا تعلق۔اس پسماندہ صوبے اور اس کے نیم پڑھے لکھے لوگوں کے بارے میں کون جاننا چاہے گا اور کسی کو ان میں کیا دلچسپی ہوگی۔ ہماری قومی میڈیا کا دعویٰ ہے کہ بلوچستان میں اخبارات کے قاری اور ٹیلیویژن کے لیے ناظرین نہ ہونے کے برابر ہیں جو کسی طور کراچی، لاہور یا اسلام آباد کا مقابلہ نہیں کرسکتے ، اور ہاں بلوچستان سے ان میڈیا ہاؤسز کو ملتا بھی کیا ہے،صوبے میں امن عامہ کا مسئلہ کھڑا کرکے صنعت نام کی کوئی چیز بچنے نہیں دی گئی کہ جس سے اشتہار ملے اور اوپر سے وفاق پر انحصار کرنے والی کنگلی اور کرپٹ صوبائی حکومت۔ ماما قدیر بلوچ کے بیٹے جلیل ریکی کی مسخ شدہ لاش ملے یا فرزانہ مجید کے جواں سال بھائی ذاکر مجید سمیت ہزاروں لاپتہ افراد پچھلے کئی سالوں سے غائب ہوں، ہماری قومی میڈیا کا کیا جاتا ہے، اسے ریٹنگ کے لیے شام آٹھ بجے سے رات گیارہ کے درمیان چلنے والے ٹاک شوز سہارا دے دیتے ہیں اور رہی سہی کسر شیلا کی جوانی اور منی کی بدنامی پوری کردیتے ہیں۔مرکزی اور سندھ اور پنجاب کی صوبائی حکومتیں ان میڈیا ہاؤسز کی خوب خاطر مدارت کرتی ہیں اور ملٹی نیشنل کمپنیاں لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے بھی انہی پر انحصار کرتی ہیں۔ قومی میڈیا ، ملک کے ہونہار سیاستدانوں،سول سوسائٹی کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ فرزانہ مجید ، سمی بلوچ اور دیگر بلوچ بہنوں کی جدوجہد ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ بی ایس او کے چئیرمین زاہد بلوچ کے لاپتہ ہونے سے بلوچستان کی ایک اور مظلوم بہن کریمہ بلوچ کو بھی اپنے بھائی کی بازیابی کے لیے احتجاج کا راستہ اختیار کرنا پڑا۔ انہیں اس بات سے بھی کوئی سروکار نہیں کہ زاہد بلوچ کو پر امن اور طلبہ حقوق کی جدوجہد کرنے کی پاداش میں اس کی بہن کے سامنے انٹیلی جنس اداروں کے اہلکاردن دہاڑے اپنے ساتھ لے گئے اور اس کا تاحال پتہ نہیں۔ اس بات سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ ملک میں سیاست کرنا تو کوئی جرم نہیں چاہے یہ سویلین افراد کریں یا اسٹیبلشمنٹ والے، پابندی صرف طلبہ حقوق اور قومی حقوق کی جدوجہد پر ہے وہ بھی صرف بلوچستان کی حد تک، بے حسی اور بے بسی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ دوسری جانب زاہد بلوچ کے لاپتہ ہونے اور بی ایس او آزاد کے ساتھیوں کی تادم مرگ بھوک ہڑتال کی خبریں بھی ،،،چند ایک کو چھوڑ کر،،،قومی اور علاقائی میڈیا سے حسب توقع غائب ہیں، ایسے میں قومی میڈیا میں بلوچ مسنگ پرسنز کی آواز بلند کرنے والئے سینئر صحافی اور اینکر پرسن حامد میر کی کمی شدت سے محسوس ہورہی ہے جو بلوچستان، مسنگ پرسن ، سیاست میں ایجنسیوں کے کردار اور سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے خلاف چلنے والے کیسز کو اجاگر کرنے کی پاداش میں شدید زخمی حالت میں زیر علاج ہیں ۔ ہم سب کو حامد میر کی جلد صحتیابی کی دعا کرنی چائیے تاکہ وہ جلد صحت یاب ہوکر نہ صرف دوبارہ اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں بلکہ لاپتہ افراد کا مسئلہ قومی میڈیا میں دوبارہ زندہ کریں۔