روز آئے خبریں ملتی ہیں کہ ایک نئے نیوز چینل نے جنم لیا ہے اسکے جنم پر جشن منایا جاتا ہے صحافتی حلقوں میں ایک خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے کہ نومولود بچہ بڑا ہوکر صحافت کے شعبے کے لئے ایک بڑا کارنامہ انجام دے گا۔ اور اسکی ہر سالگرہ پر جشن منایا جاتا ہے۔ کہ چینل نے گزشتہ سال کون کون سے کارنامے انجام دےئے اور صحافت کے شعبے کو کیسے دوام بخشا۔ خیر میں تو دیہات کی سطح پر چند چینلز کا نام جانتا ہوں جو مشرف دور حکومت سے میڈیا کے شعبے پر براجمان ہیں اور جب کبھی کراچی یا کوئٹہ جیسے شہر کو جانا پڑتا ہے تو وہاں کیبل نیٹ ورک پر چینلز کی برمار پڑی رہتی ہے۔ جو ہر سیکنڈ بریکنگ نیوز چلا رہے ہوتے ہیں۔ اگر آپ پورے دن ٹی وی کے سامنے بیٹھے رہو تو آپکو تازہ ترین ہی خبریں ملتی رہیں گی۔ جہاں پر آپکو ہر لمحے خوشی اور غم کی خبریں ملتی ہی رہتی ہیں۔ اور میڈیا مالکان کی دن دگنی اور رات چوگنی ہوتی جا رہی ہے۔ میڈیا کا صنعت اپنے عروج کو پہنچ چکا ہے۔ جہاں کاروبار گرما گرم طریقے سے چل رہا ہے۔ جہاں بڑے بڑے اینکر پرسنوں کی بولی مہنگے داموں لگائی جاتی ہے۔ جہاں پر ہر چینل اپنے ریٹنگ بڑھانے کی کوششوں میں مصروف عمل ہے۔ صنعت کی ترقی سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں مضبوطی سے جڑ پکڑ چکا ہے۔ میں بھی گزشتہ کئی سال سے ایک چینل کے ساتھ وابستہ تھا۔ اور شوقیہ طور پر رپورٹنگ کرتا تھا۔ اور اسی امید اور آس پر کہ چینل کی جانب سے اپنی محنت کا معاوضہ مل جائیگا۔ کئی سال گزر جانے کے باوجود کوئی صلہ نہیں ملا تو رپورٹنگ کے شعبے کو خیرباد کہہ دیا۔ اور ان سالوں کے دوران میں نے یہی محسوس کیا کہ نہ ہی ہم چینلز مالکان کی ضرورت ہیں اور نہ ہی ہمارے علاقے۔ کیونکہ چینلز کی ضرورت انکے مفادات اور مالکان کے مفادات سے وابستہ ہیں۔ اور اسی کو پیش نظر بنا کر میں نے ان نیوز چینلز کو خیرباد کہہ دیا۔ پنجگور کے علاقے سے ایک چینل کا رپورٹر مارا گیا تو اس پر اس چینل نے پورے تین گھنٹے کی نشریات وقف کر دےئے۔ جب میری اس چینل کے ڈائریکٹر سے بات ہوئی کہ جناب یہی صحافی کئی سالوں سے ادارے کے لئے رپورٹنگ کرتا رہا اور آپ نے اسکی کوئی مالی مدد نہیں کی۔ اور یہاں تک کہ وہ نامعلوم افراد کی گولیوں کا نشانہ بنے اور نشانہ بننے کی وجہ کیا تھی کہ وہ میڈیا سے تعلق رکھتا تھا اور چینل کو بروقت رپورٹنگ کرتا تھا۔ لیکن اس وقت اس کا کوئی پرسان حال نہیں تھا کہ مذکورہ صحافی اپنے گھر کو کس طرح چلا رہا ہے اور آج اس پر چینل کئی گھنٹے کی کوریج چلا رہا ہے۔ میرے اس سوال پر مذکورہ ڈائریکٹر کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ میں نے اسی روز سے اپنا فیصلہ کرلیا کہ ان میڈیا مالکان کے لئے کام کرنا کسی فضول کام سے کم نہیں۔ آج بھی ہمارے بہت سے دوست مختلف چینلز کے ساتھ وابستہ ہو کر بلامعاوضہ کام کر رہے ہیں ۔صرف اس آسرے پرشایدکبھی چینل مالکان کو ہوش آجائے اور وہ انکی تکالیف کا جائزہ لے کر کوئی حتمی فیصلہ سامنے لائیں لیکن میں جہاں تک سمجھتا ہوں کہ یہ ہمارے دوستوں کی خام خیالی کے سوا کچھ نہیں کہ یہی مالکان صرف اپنے مفادات کی حد تک انہیں یاد کرتے ہیں۔ ادارہ چھوڑنے کے کئی مہینے بعد مجھے ایک دن چینل ڈیسک کی جانب سے فون آیا کہ علاقے میں ایک واقعہ ہوا ہے اسکی خبر جلدی سے دیں تو میں نے جناب والا کو کہہ دیا کہ شاید آپ ادارے والے ایک رپورٹر کو اس وقت یادکرتے ہو جب آپ لوگوں کو اسکی ضرورت ہو۔ میں نے اسے بتا دیا کہ آپکے علم کے لئے عرض ہے کہ میں نے ادارے کو پانچ مہینے پہلے خیر باد کہہ چکا ہوں۔ آواران زلزلہ کے بعد مختلف چینلز کے رپورٹرز اور اینکرز نے پیشکش کی کہ علاقے کی سطح پر ادارے کے لئے رپورٹنگ کریں آپکے لئے کچھ نہ کچھ ہو جائے گا لیکن میں نے انہیں یہی جواب دیا کہ اب میں کسی امید میں نہ پڑنا چاہتا ہوں کیونکہ کئی سالوں سے اس ادارے کی جانب سے مجھے دھوکے میں رکھا گیا تھا کہ آپکو معاوضہ دینا شروع کر دیں گے۔ لیکن کچھ نہ کیا گیا۔ مجھے خود اس بات پر حیرانگی ہوتی ہے یہ کیسا شعبہ ہے جہاں مزدور کو اسکی مزدوری نہیں دی جاتی بلکہ یہی اسے یہ سکھایا جاتا ہے کہ خود کماؤ۔ لیکن مجھے آج تک یہ منتر پڑھنا نہیں آیا کہ خود کمانے کا دوسرا ذریعہ کیا ہوتا ہے۔ ہاں ایک بات سامنے آجاتی ہے کہ ایک رپورٹر بلیک میلنگ کے ذریعے ہی سے اپنی کمائی کا ذریعہ بنائے جو میرے خیال میں صحافت کے شعبے کے لئے ایک بہت بڑا دھوکہ ہے جو ہمارے چینل مالکان اس شعبے کو نقصان دینے پر تلے ہوئے ہیں۔ عجیب سا فلسفہ ہمارے چینل مالکان اور انکے ایڈوائزرز نے بنایا ہے کہ چینل اگر چلتا ہے تو اس میں بڑا کردار اینکر پرسنوں کی ہوتی ہے۔ جبکہ رپورٹر کو انتہائی نچلے درجے کی حیثیت دی جاتی ہے اور انکے ساتھ ناانصافی برتی جا رہی ہے۔ اور ان سے جب چاہیں کسی بھی فیلڈ پر جانے کا کہیں اور اس علاقے کی خبراور فوٹیج دونوں مانگیں اور رپورٹر جی حضوری میں لگا رہتا ہے وہ نہ دن دیکھتا ہے نہ رات بس اپنی جان کی بازی لگا کر خبر اور فوٹیج حاصل کرکے چینل تک پہنچا دیتا ہے۔جسے وقتی طور پر شاباشی ملتی ہے اور رپورٹر اسی شاباشی پر خوش ہو جاتا ہے لیکن اسے پتہ نہیں چلتا کہ اسکے گھر میں فاقوں کی نوبت آچکی ہے۔ جسے طفل تسلیوں کی نہیں بلکہ حقیقی سپورٹ کی ضرورت ہے جو ہمارے میڈیا مالکان کے پاس موجود نہیں ۔ گزشتہ روز فیس بک پر ایک تصویر دیکھا جس پر لکھا ہوا تھا کہ کسی چینل کے ملازم نے عدم تنخواہ کی بناء پر خودکشی کا اعلان کر دیا ہے تو اسطرح کی خبریں پڑھ کر انسان کے ذہن کو ایک دھچکا سا لگتا ہے۔ میں اس میں قصور اپنے صحافی بھائیوں کی بھی سمجھتا ہوں جو گزشتہ کئی سالوں سے ان حالات کا سامنا کرنے کے باوجود اپنے لئے کوئی لائحہ عمل نہ بنا سکے۔ کچھ نام نہاد تنظیمیں صوبائی اور ملکی سطح پر صحافیوں کی نمائندگی تو کر رہے ہیں لیکن انکے پاس صحافی برادری کی معاشی حالت بہتر بنانے کے لئے کوئی لائحہ عمل موجود نہیں میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ یہ حلقہ بھی انہی میڈیا مالکان کے بہکاوے میں آ گیا ہے یا تو ان سے ملے ہو ئے ہیں۔ ہر سال ایک چینل کی جانب سے اس کے سالگرہ کے موقع پر خوشی کے ترانے بجائے جاتے ہیں ملکی و علاقائی سطح پر تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے اور بڑے فخر سے ہیڈ لائن چلائے جاتے ہیں کہ چینل نے اپنے اتنے سال میں کتنی ترقی کر لی ۔تو سوال اس کے رپورٹر کا ہوتا ہے کہ چینل نے ترقی کر لی چینل کا مالک کاروبار کے اونچے مرتبے پر فائز ہو گیا لیکن اس چینل کیلئے کام کرنے والا رپورٹر غربت کی انتہائی نچلی سطح تک پہنچ گیا۔ ملک بالخصوص بلوچستان صحافیوں کے لئے خطرناک ترین علاقہ بن چکا ہے جہاں ہر سال صحافی اپنے قیمتی جانوں سے محروم ہو رہے ہیں۔ لیکن انکی کوئی داد رسی نہیں ہو پا رہی ہے۔ میں نے اپنے کئی صحافی دوستوں سے ایک سوال کیا کہ آپ لوگ خود اس چیز کو محسوس کر رہے ہو کہ چینل کی طرف سے مقامی صحافیوں کے لئے کسی قسم کا کوئی مالی سپورٹ موجود نہیں تو آپ اس چینل سے کنارہ کشی کیوں اختیار نہیں کرتے تو انکا جواب تھا کہ اگر وہ کنارہ کشی اختیار کریں تو انکی جگہ کوئی دوسرا آکر لے گا اور ان کے جانے سے چینل مالکان پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ انہیں صرف ضرورت ہے تو خبر کی جو انہیں کہیں نہ کہیں سے مل ہی جاتی ہے۔ یہاں پر اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ ملک میں اکثر و بیشتر تعداد ان صحافیوں کی بھی ہے جو صحافت کے شعبے سے نا بلد ہیں اور کسی نہ کسی طرح سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہو کر اپنے مقاصد بلیک میلنگ یا دوسرے اپنے کاموں کو وسعت دینے کے لئے پریس کا سہارا لیتے ہیں۔ میں کچھ ایسے صحافیوں سے بھی ملا ہوں جو خبر لکھنا تک نہیں جانتے بلکہ دوسروں سے خبر لکھوا کر اپنے ادارے کو بھجوا دیتے ہیں۔ میں یہاں پر ایک مقامی اخبار کا ذکر کرتا ہوں جو مکران بیلٹ میں مقبول ہے میں کبھی کبھار علاقے کے حوالے سے کوئی مضمون لکھتا تھا تو اسے ارسال کرتا کبھی ایڈیٹر کی مہربانی ہوتی تو وہ مضمون کو چھاپ دیتا تو کبھی مناسب نہ سمجھ کر اسے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتا تھا۔ ایک دفعہ میں نے اسی اخبار کو اہم ایشو پر ایک رپورٹ لکھا تو اس دفتر سے کسی ملازم کا فون آیا کہ مذکورہ رپورٹ کو چھاپنے کے لئے پیسے بھجوا دیں تو مجھے ایک عجیب سا ذہنی کوفت محسوس ہوا کہ علاقے کے حوالے سے ایک رپورٹ تیار کی ہے اسکے لئے بھی پیسے کا ڈیمانڈ؟ پیسے کہاں سے لاؤں تو میں نے اس سے کہہ دیا کہ بھائی میرے پاس پیسے ہی نہیں ہیں آپ اس رپورٹ کو نہ چھاپ دیں۔ اب آپ خود سوچیں یہاں پر میڈیا کی کیا حالت ہو چکی ہے اور یہ کن کے ہاتھوں بک چکی ہے انکے ہاتھوں میں جو سرمایہ دار ہیں جو صحافت کے شعبے کو صنعت کی شکل دے چکے ہیں جہاں شب و روز کاروبار اپنے عروج پر ہے جہاں ایک مزدور رپورٹراپنے دن کی دیہاڑی وصول کرنے میں ناکام ہے۔ کیا صحافت اسی لئے آزاد ہوا تھا۔ جہاں ڈیبیٹ پروگرام ایسے کرائے جاتے ہیں جہاں ہمارے دانشور، سیاست دان مختلف ایشوز پر ایک دوسرے سے دست و گریبان رہتے ہیں۔ اور ایسے پروگراموں کو ایک فیملی کے ساتھ رہتے ہوئے دیکھا نہیں جا سکتا۔ آج بھی میرے ذہن میں کئی سوالات گردش کرتے رہتے ہیں کہ میڈیا کس طرف جا رہا ہے اور کیا حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اور اسکے اہداف کیا ہیں؟ علاقائی رپورٹرز کی حالت زار کب بدلے گی؟ سوالات تو بہت ہیں لیکن انکا جواب مجھے کہیں سے نہیں ملتا۔
Email: rakhshanibaloch@gmail.com