|

وقتِ اشاعت :   May 11 – 2014

ایران پاکستان تعلقات حالیہ دنوں میں غیر دوستانہ نہیں تو کسی حد تک کشیدہ ضرور ہیں۔ اس میں حکومت پاکستان کا کوئی عمل دخل نہیں ہے بلکہ وہ غیر ریاستی عناصر جو خصوصاً ایران کے اندر رہتے ہیں اسکے ذمہ دار ہیں ۔ ان میں حالیہ دو واقعات اہم ہیں ایک سراوان کے علاقے میں حملے میں 14سرحدی محافظین کی ہلاکت اور بعد میں جیکی گور سے پانچ سرحدی محافظین کا اغواء ‘ گوکہ ان تمام واقعات میں غیر ریاستی عناصر خصوصاً ایرانی شہری ملوث تھے پھر بھی ایران کا غصہ حکومت پاکستان اور اس کے سرحدی محافظین کے خلاف تھا ۔ چار سرحدی محافظین رہا ہو گئے کس طرح رہا ہوئے آج تک عوام الناس کو یہ نہیں بتایا گیا اور نہ ہی ان کو اعتماد میں لیا گیا کہ کن لوگوں نے سرحدی محافظین کو سلامتی کے ساتھ حکومت ایران کے حوالے کیا ۔ دونوں ملکوں کے درمیان وجہ کشیدگی یہی دہشت گردی کے واقعات ہیں ۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ یہ اتنے بڑے واقعات نہیں تھے کہ ایران نے جان بوجھ کر پاکستان سے تعلقات کشیدہ کر لئے ۔ اس کے پس پشت سیاسی محرکات اور دوسرے عوامل ضرور ہیں جس کو استعمال کرتے ہوئے ایران اپنے وسیع تر مفادات کا تحفظ کرے گا۔ ایرانی میڈیا میں ایک سے زائد بار یہ خبریں آئی ہیں کہ ایران اپنے سیکورٹی بارڈر کو توسیع دے گا۔ دوسرے الفاظ میں وہ پاکستانی بلوچستان کے کچھ علاقے قبضہ کرے گا اور بہانہ یہ ہوگا کہ ایران کی قومی سلامتی کو خطرہ ہے ۔ بہر حال یہ بہانہ پاکستان اور عالمی برادری کو قابل قبول نہیں ہوگا لہذا ایران پر لازم ہے کہ وہ اپنی سلامتی کے مسائل کا کوئی پر امن حل تلاش کرے ۔ ایران سے آمدہ اطلاعات میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ ایران نے اپنے مشینی دستے بلوچستان کے سرحد کے نزدیک پہنچا دئیے ہیں ۔ پسا بندر پر ایک نئی نیول جیٹی تعمیر کررہا ہے جو بلوچستان کے سرحد کے زیرو میل پر ہے ۔ ایران کی یہ پالیسی جارحانہ ہے ۔ اسلام آباد میں آئے ہوئے ایرانی وفد کے ارکان نے یہ مطالبہ کیا کہ پاکستان کی فوج اور سرحدی محافظ بھی اتنی ہی بڑی تعداد میں سرحد پر رکھے جتنا کہ ایران نے رکھا ہوا ہے ۔ ایک طرف ایران بلوچوں کی آمد و رفت پر پابندیاں سخت کررہا ہے اور دوسری جانب پنجابی تاجروں کو یہ دعوت دے رہا ہے کہ وہ سرحدی تجارت سے فائدہ اٹھائیں ۔ یہ دہرا معیار ہے اس سے ایران کے قدیمی ساکھ کو نقصان پہنچے گا کہ وہ بلوچوں کو نظر انداز کرتے ہوئے پنجابیوں سے تجارت کا خواہش مند ہے ۔ ایران کے بلوچوں سے بہتر تعلقات کے بعد ہی بقیہ پاکستان سے تعلقات اچھے ہوسکتے ہیں ۔ سابق شاہ ایران کا وہ تمام تجربہ ناکام رہا جس کے ذریعے پاکستان کے ساتھ اعلیٰ ترین سطح پر سیاسی تعلقات استوار کیے گئے اور سرحد پر غریب بلوچوں کونظر اندازکیا گیا ۔ ان کی سرکوبی کی گئی ان کو غریب اور نادار رکھاگیا ہے جس سے ایران اور پاکستان کے درمیان زیادہ دوریاں پیدا ہوگئیں اور اسکا نقصان دونوں ملکوں کو ہوا ۔ ایران اور پاکستان کے درمیان بہترین تعلقات کی کنجی بلوچوں کے پاس ہے ۔ ایران کے سرحد کے دونوں اطراف صرف بلوچ ہی رہتے ہیں ۔ یہ ایران حکومت کے لئے آسان کام ہے کہ بلوچ شدت پسندوں کو تنہا کیا جائے اور عام بلوچوں کو ایران کے اقتدار میں ان کا جائز حق دیا جائے ۔ کشیدہ بلوچستان کسی طرح بھی پاکستان اور ایران تجارت کو فروغ نہیں دے سکے گا۔ ایرانی پاکستان سے ڈالر نہیں کما سکیں گے بلکہ زیادہ نقصان اٹھائیں گے ۔ وزیراعلیٰ بلوچستان ‘ وزیراعظم کے ہمراہ ایران کے دورے پر موجود ہوں گے ۔ ایران کے حکام ان سے دو طرفہ تعلقات پر بات چیت کریں ۔ ڈاکٹر مالک یہ اہلیت رکھتے ہیں کہ وہ ایران اور پاکستان کے تعلقات میں زیادہ بہتری لائیں اور ایران کو کسی مہم جوئی سے باز رکھ سکتے ہیں ۔ پاکستان ہی نہیں بلکہ ایران بھی چاروں اطراف سے خطرات میں گرا ہوا ہے ۔ صرف عقلمندی سے ہی ان خطرات سے نکلا جا سکتا ہے ۔