|

وقتِ اشاعت :   May 12 – 2014

دو مسلح افراد جن کا تعلق مذہبی جنونی تنظیم سے تھا ، نے راشد رحمان جو ملتان اور پاکستان کے معروف وکیل اور انسانی حقوق کے علمبردار تھے، کو ان کے دفتر میں بے رحمانہ طورپر قتل کردیا۔ ان کا ایک ساتھی فائرنگ میں زخمی ہوا ۔ مجموعی طورپر دو افراد زخمی ہوئے اور راشد رحمان جاں بحق ہوگئے ۔ مرحوم کا قصور یہ تھا کہ توہین رسالت کیس میں ایک ملزم کی پیروی کررہے تھے ۔یہ ان کا قانونی اور انسانی حق تھا کہ کس کیس میں بہ حیثیت وکیل پیروی کریں ، کسی کو اعتراض نہیں ہونا چائیے ۔ مقدمے کی سماعت جیل کے اندر ہورہی تھی اور ایڈیشنل ڈسٹرکٹ سیشن جج سماعت کررہے تھے۔ اسی دوران وہ وکلاء صاحبان اور انکے دو ساتھیوں نے راشد رحمان کو دھمکی دی کہ وہ اس کیس کی پیروی نہ کریں۔ راشد رحمان کا جواب تھا کہ وہ اپنا اور ملزم دونوں کا قانونی حق استعمال کررہے ہیں ۔ اس کے بعد ان حضرات نے ایڈیشنل اینڈ ڈسٹرکٹ سیشن جج کی عدالت میں،جو جیل میں ہورہی تھی، راشد رحمان کو یہ دھمکی دی تھی کہ وہ آئندہ پیشی میں زندہ نہیں ہوں گے۔ انہوں نے خدائی حکم نامہ صادر فرمادیا اور ان کو دوسری عدالتی پیشی سے قبل موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ۔ان کے دو ساتھیوں کو زخمی کردیا ۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ جج صاحب بہادر کے سامنے ان کو قتل کی دھمکیاں دی گئیں ۔ جج صاحب آج تک ٹس سے مس نہیں ہوئے اور نہ کبھی ہوں گے۔ جج صاحبان کو بشمول سابق چیف جسٹس ،صرف توہین عدالت کے مقدمات میں دل چسپی ہوتی ہے کیونکہ وہ ان کے ذاتی انا کا مسئلہ ہوتا ہے ۔ انسانی زندگی خصوصاً نامور وکیل کی زندگی کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔ اس سفاکانہ قتل میں پوری پنجاب اور وفاقی حکومت خاموش ہے ۔ مذہبی دہشت گردوں سے ان کے روابط ہیں۔ لہذا ن کے خلاف کارروائی کرنا مشکل نظر آتا ہے۔ ظاہر ہے کہ دھمکی دینے والے وکیل اور قاتل دونوں کا تعلق ایک مذہبی اور جنونی تنظیم سے ہے جو حکومت کے اچھے کھاتے میں درج ہیں ۔ہونا یہ چائیے تھا کہ ان وکلاء کو گرفتار کیا جاتا جنہوں نے بھری عدالت میں ان کو قتل کی دھمکی دی تھی اور ان سے مذہبی اور جنونی تنظیم سے متعلق معلومات اکھٹے کرتے اوران کا نیٹ ورک مکمل طورپر توڑ دیتے ۔ حکومت پنجاب نے یہ نہیں کیا بلکہ ان کے ساتھ نرم رویے کا اظہار کیا اور راشد رحمان جیسے عظیم انسان کے سفاکانہ قتل کو نظر انداز کردیا ۔ پنجاب حکومت کے اس طرز عمل سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مذہبی اور جنونی دہشت گردوں کی پشت پنجاہی کررہی ہے ۔ یہ سب کو معلوم ہے کہ توہین رسالت کیس کے اکثر مقدمات میں پیروی کرنے والے وکلاء کو دھمکیاں دی جاتی ہیں ۔ ان مذہبی جنونی گروہوں کو روشن خیال اور محب وطن پاکستانیوں کے خلاف استعمال کیاجاتا ہے ۔ گورنر پنجاب سلمان تاثیر کی شہادت اس کی زندہ مثال ہے ۔اس پر بھی اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ اس کے صاحبزادے کو بھی اغواء کیا گیا ۔ اس کا تعلق اغواء برائے تاوان سے نہیں بلکہ سیاست سے ہے ۔ اب تو پنجاب سے پی پی پی کا صفایا ہوگیا ہے اب سلمان تاثیر کے بیٹے اور یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کو یرغمال بنانے کا کوئی جوازنہیں ہے ۔ شاید بعض مقتدر حلقے پاکستان کو ایک مذہبی اور جنونی ریاست کا درجہ دینا چاہتے ہیں جس کی موجودہ دور میں گنجائش نظر نہیں آتی۔ پوری کائنات متحد ہو کر اس قسم کے عمل کو روکے گی ۔ آخری بات یہ ہے کہ حکومت پنجاب اس جنونی اور مذہبی دہشت گرد تنظیم کے خلاف بھرپور کارروائی کرکے یہ ثابت کرے کہ وہ اس کی پشت پناہ نہیں ۔