ایرانی صدر روحانی اور پاکستانی وزیراعظم نواز شریف نے اس بات پر حامی بھر ی ہے کہ ایران ‘ پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے پر عمل درآمد کیاجائے گا ۔ اس منصوبہ کو موخر کرنے پر ایران نے اپنے زبردست غصے کا اظہار کیا تھا اور یہ تک کہہ دیا تھا کہ ایران پاکستان سے بیس کروڑڈالر ماہانہ جرمانہ وصول کرے گا۔مگر تہران میں مذاکرات کے نتیجے میں ایران نے اس بات پر اپنی رضا مندی کااظہار کیا ہے کہ وہ پاکستان کی نئی تجاویز کا انتظار کرے گا اور اس پر غور کرے گا۔ اس کا مطلب صاف یہ نکالا جارہا ہے کہ پرانا معاہدہ منسوخ ہوچکا ہے اور ہر چیز پر نئے سرے سے بات چیت ہوگی بشمول گیس کی قیمت کا تعین۔ نواز شریف کی وفاقی حکومت کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے کہ توانائی کے بڑے بحران کے دوران پاک ‘ ایران گیس پائپ لائن کو موخر کردیا گیا ہے ۔ جب پائپ لائن کا افتتاح ہورہا تھا تو پنجاب کے وزیراعلیٰ نے اس کو ایک ’’ فراڈ ‘‘ کہا تھا کیونکہ یہ پائپ لائن صرف نواب شاہ اوراس کے بعد بھارت جانی ہے ۔ ایران نے اس منصوبے پر کام شروع کرنے کیلئے پچاس کروڑ ڈالر کا قرضہ دینے کا اعلان کیا ۔ ابتداء میں قرضہ کی رقم پچاس کروڑ ڈالر اور بعد میں ایک ارب پچاس کروڑ ڈالر تک ملنی تھی ۔ دوسری جانب پاکستانی بنکوں نے اپنے ہی ملک کے منصوبے پر سرمایہ کاری کرنے اور قرضہ فراہم کرنے سے انکار کردیاتھا ۔ خطرہ تھا کہ امریکا ان پر پابندیاں لگائے گا۔ اسی طرح ہمارا عظیم دوست چین نے بھی اقتصادی پابندیوں کے خوف سے قرضہ دینے سے انکار کیا تھا۔ یہ صرف ایران تھا جو پاکستان کی اس بحرانی صورت حال میں مدد کرنا چاہتا تھا۔ اب یہ طے ہے کہ گیس پائپ لائن کے تعمیر کے اخراجات بڑھ جائیں گے۔ ایران کی اقتصادی پوزیشن زیادہ مستحکم ہوچکی ہے اس کے تمام منجمد اثاثے ایران کو ملنے شروع ہوئے ہیں ۔ ایرانی تیل کی ترسیل پوری دنیا خصوصاً چین ‘ بھارت اور دنیاکے ترقی یافتہ ممالک کو جاری ہے ۔ آج کل نو سے زیادہ یورپی ممالک ایران سے گیس خریدنے کے لئے اپنی دل چسپی کا اظہار کررہے ہیں اور اکثر ممالک کے اعلیٰ ترین افسران اور سیاسی رہنماؤں نے تہران کے دورے بھی کیے ہیں ۔ چنانچہ پاکستان ایرانی گیس کا واحد خریدار نہیں رہا ۔ نو یورپی ممالک بھی ایران سے گیس خریدنے میں دلچسپی رکھتے ہیں ۔ لہذا نواز شریف کی حکومت کو گیس کی زیادہ قیمت دینے کے لئے تیار رہنا چائیے یا دوسرے الفاظ میں پرانے معاہدے کی منسوخی کی قیمت ادا کرنی پڑے گی ۔ ایران اپنے حصے کی نو سو کلو میٹر طویل پائپ لائن تعمیر کر چکا ہے اور اس پر اربوں ڈالر خرچ کرچکا ہے ۔ یہ پائپ لائن چہاہ بہار کی بندر گاہ پر پہنچ چکی ہے جو گوادر پورٹ سے صرف 72کلو میٹر دور ہے ۔ پاکستان کو اپنے حصے کی 781کلو میٹر طویل پائپ لائن تعمیر کرنی ہے ۔ یہ کب شروع ہوگی ۔ سرمایہ کہاں سے آئے گا ‘ ٹھیکہ کون سے من پسند کو ملے گا۔ یہ سب باتیں حکومت پاکستان کو طے کرنی ہیں اور جلد ہی طے کرنی ہیں ۔ ایران شاید ایک طویل مدت تک انتظار نہیں کرسکتا ۔ یہ بھی واضح ہے کہ پاکستان میں قدرتی گیس کے ذخائر16سالوں میں ختم ہوجائیں گے ۔ سوئی گیس نے پاکستان کی معیشت کو ساٹھ سال تک سہارا دیا ۔ اب جبکہ سوئی گیس کے ذخائر ختم ہورہے ہیں ۔ پنجاب کے نوکر شاہی ‘ اشرافیہ ‘ اور سیاسی رہنماؤں کو سوئی گیس کی اہمیت کا احساس ہو گا کہ وہ پنجاب کی صنعتی ترقی میں کتنا اہم کردار ادا کرتا رہا ہے ۔ تاہم ان تمام باتوں کے باوجود ایران درگزر سے کام لے گا او رپاکستان کی ہر ممکن مدد کرے گا کہ وہ اپنے حصے کی پائپ لائن جلد سے جلد تعمیر کرے اس کو مالی اور تکنیکی مدد فراہم کرے تاکہ پاکستان توانائی کے بحران پر قابو پا لے ۔ اس سلسلے میں یہ قوی امید ہے کہ ایران اور پاکستان مشترکہ طور پر امریکا سے یہ مطالبہ کریں کہ وہ پاک ایران گیس پائپ لائن کو پابندیوں سے استثناء دے تاکہ بلا خوف و خطر منصوبہ پر کام شروع ہو اور جلد سے جلد مکمل ہو۔ یہ معاملہ نواز شریف پر منحصر ہے کہ کس من پسند شخصیت یا سیٹھ کو اتنا بڑا ٹھیکہ دیں گے ۔