|

وقتِ اشاعت :   May 15 – 2014

روز اول سے بعض مقتدر قوتیں بلوچستان میں صنعتی اورمعدنیاتی ترقی کے خلاف تھیں اور ہیں۔ دورہ ایران میں سابق گورنر مرحوم غوث بخش بزنجو نے شاہ ایران کے ساتھ مذاکرات میں پاکستانی اور ایرانی بلوچستان کی معاشی ترقی کا مطالبہ کیا ۔ شاہ ایران نے منظور کر لیا ان میں دو کپڑے کے کارخانے ‘ ایک اوتھل اور دوسرا کوئٹہ میں ‘ خضدار میں انجینئرنگ کالج کا قیام جسے آج کل یونیورسٹی کا درجہ دیاگیا ہے اور آخری مطالبہ گوادر پورٹ کی تعمیر میں ایرانی امداد ۔ ایران کے بادشاہ نے اس بات سے معذوری ظاہر کی اور کہا کہ ایران کے پاس تکنیکی وسائل نہیں کہ وہ گوادر پورٹ تعمیر کرسکے ۔ لہذا ایران نے کپڑے کے دوکارخانے اور خضدار کالج کی منظوری دی ۔ کپڑے کی دو بہت بڑی ملیں تھیں ،ان میں ہر ایک میں 50ہزار اسپینڈل تھے اور تین شفٹوں میں نو ہزار مزدوروں کی کام کرنے کی گنجائش تھی ۔ اس طرح سے ملوں کی استعداد 70ہزار مزدوروں کو ملازمت فراہم کرنا ‘ ملک میں اچھے کوالٹی کے کپڑے کی پیداوار میں اضافہ کرنا اور حکومت کے لئے ریونیو حاصل کرنا تھا۔ ابتداء ہی سے ان دونوں ملوں کو ٹارگٹ بنایا گیا اور ان کو بند کرنے کی کوششیں شروع کی گئیں۔ اگر ان ملوں کو چھوڑ دیا گیا ہوتاتو بلوچستان میں صنعتی اور معاشی ترقی کے عمل کو نہیں روکا جا سکتا تھا۔ پہلے مرحلے میں ملوں اور پی آئی ڈی سی میں ملک کے بدنام ترین اوربد عنوان افسروں کو تعینات کیا گیا ۔ انہوں نے خام مال بہت ہی مہنگے داموں خریدا جو بد ترین کوالٹی کا تھا جس سے مل اور اس کی معیشت کو نقصان پہنچایا گیا ۔ دوسرا پروپیگنڈا یہ کیا گیا کہ ان ملوں کی پیداوار کا کوئی خریدار نہیں ۔ ایران نے اس موقع پر یہ گارنٹی دی کہ وہ تمام پیداوار خود خریدے گا۔ بہر حال معاشی معاملات کو بہانہ بنا کر کارخانوں کو بند کردیاگیا ۔ اور ریاست مزدوروں اور ملازمین کی تنخواہیں ادا کرتی رہی ۔ 2002کے انتخابات کے بعد جام میرمحمد یوسف مرحوم وزیراعلیٰ بنے ۔ چونکہ اوتھل مل میں نوے فیصد ملازمین اس کے حمایتی تھے تو انہوں نے مل کا دورہ کیا اور مشینری کی بہت ہی اعلیٰ پیمانے پر نگہداشت کی ،اس امید کے ساتھ کہ اس مل کو دوبارہ چلایا جائے گا۔ وفاقی وزیر صنعت لیاقت جتوئی کوئٹہ آئے اور جام صاحب کی درخواست پر انہوں نے کوئٹہ مل کا دورہ کیا ۔ دونوں کی کوششوں سے مل کی مشینری کو انتہائی عمدہ حالت میں رکھا گیا ۔ دونوں رہنماؤں نے اس فیصلے کا اعلان کردیا کہ دونوں ملوں کو دوبارہ چلایا جائے گا اور بیس ہزار مزدوروں کی ملازمتوں کا تحفظ کیا جائے گا۔ اس اعلان کے بعد مقتدرہ کے بعض عناصر آگ بگولہ ہوگئے کہ ہم نے ان دونوں ملوں کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند کردیا تھا جام یوسف اور لیاقت جتوئی کون ہوتے ہیں جو ملوں کو دوبارہ چلائیں گے۔مقتدرہ کے ان عناصر نے جارحانہ طرز عمل اختیار کیا بلکہ جام صاحب مرحوم اور لیاقت جتوئی کو سختی کے ساتھ منع کیا کہ اپنی تمام کوششیں بند کردیں ۔ سین میں گورنر اویس احمد غنی کو ڈال دیا گیا ۔ وہ ایک کاریگر آدمی تھا۔ اس نے مشینری اپنے ایک رشتہ دار کے نام خریدی یعنی کوڑیوں کے دام۔ جس وقت یہ مشینری لگائی گئی تھی تو اس کی قیمت 1980ء میں 69کروڑ روپے تھی ۔ مقتدرہ نے اویس احمد غنی کو یہ مشینری صرف سولہ کروڑ میں فروخت کی ۔ یہ انسانیت اور ریاست کے خلاف جرم تھا کہ بیس ہزار انسانوں کا حق روزگار چھین لیا گیا اور ان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بے روزگار کردیا گیا ۔ لہذا وفاقی حکومت پر یہ لازم ہے کہ دونوں ملوں کوفوراً بحال کرائے اور پچاس ہزار اسپنڈل پر مشتمل ملوں کو دوبارہ چلائے ۔ یونیورسٹی والا ڈرامہ ختم کریں، ان کو کرائے کے مکانات میں لے جائیں تاکہ مل خالی اور وہاں کارخانے چلائے جائیں اور بیس ہزار افراد کے روزگار کو اولیت حاصل ہونی چائیے ۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کیونکہ اس کے ہی کارندوں نے دونوں ملیں بند کردی تھیں ۔