وفاقی کابینہ نے نئے مالی سال کے بجٹ کے وسیع خدو خال کی منظوری دے دی جس میں بجلی گیس کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ تمام ٹیکس کی رعایتیں ‘ بجلی اور دوسرے اشیاء پر سبسڈی کی واپسی شامل ہیں ۔ یہ سب کچھ آئی ایم ایف کے احکامات کے تحت ہورہا ہے کہ بجٹ کا خسارہ کم کیا جا سکے خصوصاً بجٹ میں آمدنی اور اخراجات کے درمیان وسیع فرق کو کم کیا جاسکے ۔ آئی ایم ایف پاکستان کو قرضہ فراہم کرتی ہے تو وہ اس بات کی یقین دہانی کراتی ہے کہ اس کا قرضہ واپس ہوگا۔ بجٹ خسارہ کم ہوگا اور حکومت کی آمدنی میں اضافہ ہوگا تو ہی آئی ایم ایف کے قرضے واپس ہوں گے۔ بجٹ کا خسارہ کم کرنے کے دو طریقے ہیں ۔ پہلاطریقہ یہ ہے کہ حکومت کی آمدنی میں اضافہ کرنے کے لئے براہ راست اور بلواسطہ ٹیکس لگائے جائیں ‘ سبسڈی ‘ ٹیکس میں چھوٹ کو واپس لیا جائے ۔ وفاقی کابینہ نے اپنے اجلاس میں یہ سب فیصلے کر لیے ہیں اور آنے والے بجٹ میں ان تمام منفی اقدامات کو شامل کیا گیا ہے جس سے معیشت مزید سکڑ جائے گی۔ روزگار کے مواقع ختم ہوجائیں گے، مہنگائی میں زبردست اضافہ ہوگا ‘صرف اسی بات پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ ترقیاتی بجٹ میں بھی آئی ایم ایف کے کہنے پر کٹوتی کی گئی ہے ۔ موجودہ سال میں ترقیاتی بجٹ 540ارب کا تھا اور اگلے سال یہ بجٹ صرف 525ارب روپے کا ہوگا۔ امسال بھی ترقیاتی بجٹ میں زبردست کٹوتی کی گئی ۔ بلوچستان کی 75فیصد ترقیاتی بجٹ روک دی گئی۔ آخری اطلاعات تک وفاق نے بلوچستان میں پچیس فیصد ترقیاتی فنڈ خرچ کیے تھے۔ یہ تقریباً ہر سال کا معمول ہے کہ بلوچستان کو بیس فیصد کے لگ بھگ ترقیاتی بجٹ دئیے جاتے ہیں جو ملک کا آدھا حصہ ہے ۔ کبھی کبھار سرکاری ذرائع یہ مشہور کردیتے ہیں کہ بلوچستان زیادہ رقم جذب کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ۔ لہذا اس کو بیس ارب روپے سے زیادہ رقم نہ دی جائے ۔ دوسری جانب گزشتہ تین سالوں میں بلوچستان نے تقریباً سو ارب روپے اپنی صوبائی ترقیاتی پروگرام پر خرچ کیے ہیں ۔ تقریباً وہ سو ارب روپے بالکل ضائع گئے ہیں کیونکہ اتنی رقم خرچ کرنے کے بعد نہ بلوچستان کی آمدنی میں اضافہ ہوا اور نہ ہی بلوچستان میں روزگار کے نئے ذرائع پیدا ہوئے ۔ بلکہ تمام رقم ضائع کی گئی وہ بھی فضول اور ذاتی منصوبوں پر خرچ کیے گئے ۔ اگلا سال زیادہ مشکل سال ہوگا اس لیے صوبے کو وفاق پر زیادہ انحصار نہیں کرنا چائیے اور اپنی غیرپیداواری اخراجات میں زبردست کمی لانی چائیے۔ بلوچستان کا اگلے سال کا بجٹ تقریباً 200ارب روپے پر محیط ہوگا ۔ اس میں غیر ترقیاتی اخراجات اور تنخواہوں کی مد میں 155ارب روپے رکھے جائیں گے جبکہ ترقیاتی پروگرام میں چالیس ارب کے بجائے 45ارب رکھے جائیں گے ۔ یہ بجٹ میں ایک عدم توازن ہے ۔ صوبائی حکومت کو چائیے کہ وہ غیر پیداواری اخراجات میں 55ارب روپے کی کمی کرے اور ترقیاتی اخراجات کے لئے سو ارب روپے مختص کیے جائیں ۔ گاڑی ‘ پیٹرول اور دوسری مراعات میں زبردست کمی کی گنجائش موجود ہے کہ حکومت ان اخراجات میں 55ارب کی کٹوتی کرے اور ترقیاتی فنڈ معاشی ترقی کے منصوبوں پر خرچ کیے جائیں ۔ اس میں معاشی منصوبوں میں زیادہ سے زیادہ روزگار کے ذرائع پیدا کیے جائیں اور حکومت ایسے معاشی یونٹ پر سرمایہ کاری کرے کہ وہ منافع بھی دیں اور ریاست کے ریونیو میں اضافہ بھی کریں ۔ اس کے لئے پی آئی ڈی سی کا ماڈل انتہائی مناسب ہے حکومت ایسے کارخانے لگائے جو منافع بھی دیں اور روزگار بھی فراہم کریں اور سالوں بعد ان کو اچھے لوگوں کے ہاتھوں فروخت کیاجائے جیسا کہ پی آئی ڈی سی نے پاکستان کے ابتدائی دنوں میں کیا تھا۔ موجودہ صورت حال میں بلوچستان پسماندہ ہی رہے گا ۔ اگلے سو سال تک اس کی ترقی کے امکانات معدوم نظر آتے ہیں اگر ترقی کی یہی رفتار رہی ۔