وفاق کی جانب سے چار ارب روپے آواران کے زلزلہ زدگان کی آباد کاری کیلئے صوبائی حکومت کو مل گئے ہیں۔ اس سے 16ہزار مکانات آواران اور کیچ اضلاع میں تعمیر کیے جائیں گے۔ یہ زلزلہ پروف ہوں گے۔ اضافی طورپر ان مکانات کو سولر نظام سے بجلی فراہم کی جائے گی ۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ کوالٹی تعمیر کے مسئلہ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ یہ کوالٹی مکانات ہوں گے۔ ان کی تعمیر کی نگرانی صوبائی حکومت ‘ سیاسی رہنما ‘ کمیونٹی کے لوگ اور سیکورٹی اہلکار کریں گے۔ انہوں نے ان تمام الزامات کی تردید کی کہ موقع پر زلزلہ زدگان کو امداد نہیں دی گئی یا اس میں غیر ضروری تاخیر کی گئی اور نہ ہی امدادی اشیاء کی تقسیم میں کوئی بد عنوانی ہوئی ۔اس اجلاس میں اعلیٰ ترین افسران اور کچھ صوبائی وزیر بھی موجود تھے ۔ تاہم عوام الناس میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ زلزلہ زدگان کی بھرپور امداد نہیں کی گئی ۔دنیا کو معلوم ہے کہ پاکستان کے پاس وہ جدید ٹیکنالوجی نہیں ہے جو اقوام متحدہ کے نظام اور بین الاقوامی برادری کے پاس ہے ۔ ان کو امدادی کارروائیوں سے دور رکھنا انسانیت کی کوئی خدمت نہیں ہے ۔ دوست ممالک اور امداد دینے والے بین الاقوامی اداروں کو بلوچستان میں قدم رکھنے اور امدادی کارروائیوں میں حصہ لینے سے منع کیا گیا، جس سے زلزلہ زدگان کومثبت پیغام نہیں ملا۔بروقت اور موثر بیرونی امداد سے زلزلہ زدگان کی نہ صرف ہمت افزائی ہوتی بلکہ راحت کاری کاکام بھی کب کا مکمل ہوچکا ہوتا۔ اور صرف دوبارہ آباد کاری کا کام جاری رہتا۔ بین الاقوامی برادری اور دوست ممالک پاکستان کی مددکرنا چاہتے تھے جس سے ان کو منع کیا گیا ۔ اب آخر میں حکومت پاکستان نے صرف چار ارب روپے عطیہ میں دئیے جو ایک انتہائی قلیل رقم ہے ۔ اس رقم سے زلزلہ زدگان کی اشک شوئی بھی نہیں ہوسکتی ۔ اب بھی وقت ہے کہ حکومت بین الاقوامی امدادی اداروں اور دوست ممالک کو اجازت دے کہ وہ براہ راست متاثرین کی راحت کاری کریں اور ان کو براہ راست امداد پہنچائیں ۔ حکومت پاکستان آج کل ایک بہت بڑے معاشی بحران میں مبتلا ہے ۔ رواں مالی سال میں وفاقی ترقیاتی پروگرام میں بیس ارب روپے کی کٹوتی کی گئی ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ وفاق معاشی بحران کا سامنا کررہا ہے اور وہ کیونکر پچاس ارب روپے خرچ کرکے آواران اور کیچ کے زلزلہ زدگان کی دوبارہ آباد کاری کرے گی ۔ اس مسئلہ پر صوبائی وزیر اعلیٰ ڈاکٹر مالک کا وژن صاف اور واضح تھا کہ زلزلہ زدگان اور خصوصاً ان کی دوبارہ آباد کاری کیلئے اقوام متحدہ اور دوسرے اداروں سے امداد حاصل کی جائے یا ان کو اجازت دی جائے کہ وہ آباد کاری کے کام میں حکومت کے شانہ بشانہ کام کریں اور زلزلہ زدگان کی دل جوئی کریں ۔ وفاقی حکومت کو موجودہ معاشی صورت حال میں اپنے پرانے فیصلے پر نظر ثانی کرنی چائیے تاکہ پاکستان کے دوست ممالک ‘ خصوصاً ایران ‘ سعودی عرب‘ یو اے ای ‘ کویت ‘ بحرین اور دیگر ممالک اس کا ر خیر میں حصہ لیں ۔ اگر وفاقی حکومت اپنے پرانے اور غلط فیصلے پر بضد رہی تو اس کے نتائج کا سامنا کرنے کیلئے بھی تیار رہے اور زلزلہ زدگان کی ناراضگی بھی مول لے ۔
وزیراعظم کے ساتھ آنے والے ہر سرکاری شخصیت نے یہ تسلیم کیا کہ آواران میں غربت اپنے انتہا کو ہے اور وہ ہر طرح سے ان متاثرین کی مدد کریں ۔ اس سے قبل حکومت نے غلط فیصلے کیے اور بین الاقوامی امداد قدرتی آفات کے متاثرین کو پہنچنے نہیں دی گئی ۔ ان میں دس سال کی طویل خشک سالی ‘ دو سمندری طوفان‘ تین بار سیلاب اور زبردست بارش‘ آخری سیلاب میں تو وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی نے دعویٰ کیا تھا کہ بلوچستان کو سو ارب روپے کا نقصان پہنچا اور وفاق نے ایک آدھ ارب روپے کی امداد دی اور بین الاقوامی امداد دینے والے اداروں کو نکال باہر کیا یا انکو اتنا ہراساں کیا کہ وہ جلدی سے اپنا سامان لپیٹ کر واپس چلے گئے ۔