بلوچستان انڈس کے نظام سے باہرہے البتہ دریائے سندھ ڈیرہ غازی خان میں 300میل تک بہتا ہے لیکن وہ انتظامی طورپر پنجاب کا حصہ ہے۔ اس موجودہ انتظامی بلوچستان کو نہری پانی سندھ اور پنجاب سے فراہم کیا جاتا ہے دوسر ے الفاظ میں نہری پانی پر کنٹرول سندھ اور پنجاب کے ہاتھ میں ہے ۔ دونوں صوبے اپنی مرضی اور ضروریات کے تحت نہری پانی کھیرتھر کینال اور پٹ فیڈر میں چھوڑتے ہیں جو ہمیشہ بلوچستان کے جائز حق سے بہت کم ہوتا ہے دوسرے الفاظ میں پانی کی قلت کی صورت میں دونوں صوبے سزا بلوچستان کو دیتے ہیں اور اس کے حصے کا پانی کم کردیتے ہیں۔ یہ ایک امتیازی سلوک ہے جو کئی دہائیوں سے روا رکھا جارہا ہے ۔ اس کی زندہ مثال کچھی کینال ہے ۔ صوبوں کے درمیان سندھ کے نہری پانی کا معاہدہ 1991ء میں ہوا اور اس میں شہباز شریف اور نواب ذوالفقار مگسی نے اہم کردار ادا کیا ۔ اور صوبوں کے درمیان نہری پانی کے تقسیم کے تنازعے کو حل کردیا۔ اس کی رو سے بلوچستان کو دس ہزار کیوسک سے زیادہ سیلابی پانی کا حصہ ملے گا۔ ظاہر ہے کہ پٹ فیڈر اور کھیرتھرکینال میں یہ گنجائش نہیں ہے کہ وہ اضافی دس ہزار کیوسک پانی فراہم کرے اسلئے یہ تجویز منظور ہوئی کہ اضافی نہری پانی کیلئے کچھی کینال تعمیر کیاجائے ویسے کچھی کینال کا منصوبہ پراناتھا۔ پٹ فیڈر کی تعمیر کے بعد کچھی کینال کو اہمیت دی گئی کہ وہ بلوچستان کا سب سے بڑا آبپاشی کا نظام ہوگا ۔1991سے لے کر آج تک کچھی کینال تعمیر نہیں ہوسکا ۔وجہ وفاقی حکومت کی عدم دلچسپی تھی اور نہ ہی مقتدرہ بلوچستان کو اضافی دس ہزار کیوسک پانی دینے کے حق میں تھا لہذا وہی ترکیب استعمال کی گئی کہ کچھی کینال کی تعمیر میں جتنی زیادہ دیر کی جائے اتنا ہی بہتر ہے ۔ کئی دہائیوں بعد کچھی کینال کا ایک حصہ تعمیر کیا جارہا ہے ۔ یہ حصہ بگٹی قبائلی علاقے میں ایک لاکھ ایکڑ زمین کو آباد کرے گا۔ کچھی کینال کے منصوبے کے تحت اس کی زیر کاشت زمین سات لاکھ ایکڑ سے زیادہ ہے ۔ اب صرف دریائے سندھ کے نہری نظام سے ایک لاکھ ایکڑ زمین آباد ہوگی ۔ باقی معاملات پر معلومات حاصل نہیں ہیں کہ پہلا فیز مکمل ہونیوالاہے اور دوسرا فیز کب مکمل ہوگا ۔ یہاں صوبائی حکومت کا کردار اہم ہے اس پر لازم ہے کہ متعلقہ وزارت پر اپنا دباؤ بڑھا ئے کہ جلد سے جلد دوسرا فیز مکمل کیا جائے، اس کیلئے فنڈز فراہم کیے جائیں اور اس میں کٹوتی نہ کی جائے تاکہ پورا پروجیکٹ جلد سے جلد مکمل ہواور بلوچستان غذائی پیدا وار میں خود کفیل ہو اور اضافی گندم پنجاب اور سندھ سے درآمد نہ کرنا پڑے ۔ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق بلوچستان میں گندم کی شاٹ فال تقریباً تین لاکھ ٹن ہے اور اس میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے مگر کچھی کینال کے مکمل ہونے کے بعد بلوچستان غذائی پیداوار میں نہ صرف خود کفیل ہوجائے گا بلکہ افغانستان اور ایران کی جزوی ضروریات کو پوری کرسکے گا۔ کچھی کینال کے علاوہ حکومت سینکڑوں دریاؤں پر چھوٹے اور میڈیم سائز کے ڈیم تعمیر کرسکتی ہے جس سے دور دراز علاقے بھی غذائی معاملات میں خود کفیل ہوں گے اور ان کو نصیر آباد ڈویژن سے گندم کی ترسیل کی ضرورت نہیں پڑے گی ۔ صر ف مکران میں 360سے زائد چھوٹے بڑے دریا بہتے ہیں جو نہ صرف غذائی پیداوار میں بلوچستان کو خود کفیل بنائیں گے بلکہ صنعتی اور تجارتی ترقی کیلئے اضافی پانی گوادر ‘ پسنی ‘ اورماڑہ جیسے بندر گاہوں کوفراہم کریں گے اگر گوادر کے قریب پانچ بڑے دریاؤں پر پانی ذخیرہ کرنے کے لئے ڈیم تعمیر کیے جائیں تو گوادر پورٹ کی پانی کی ضرورت پوری ہوں گی ۔