جب سنہ 2014 کے فٹبال کے عالمی کپ کے افتتاحی میچ میں میزبان ٹیم کروشیا سے مقابلے کے لیے میدان میں اترے گی تو برازیل کی ٹیم کے گیارہ کھلاڑی تو وہاں ہوں گے ہی، لیکن ان کے ساتھ خدا بھی ہوگا۔ اور جو کھلاڑی بھی برازیل کی طرف سے پہلا گول کرے گا، اسے تو اس کا انعام ملے گا لیکن اس گول کا اصل سہرا یسوع مسیح کے سر پر بھی ہوگا۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ برازیل میں فٹبال محض ایک کھیل نہیں بل کہ ایک مذہب ہے۔ تاہم فٹبال کے میدان کے اندر اور میدان سے باہر دونوں جگہ برازیلی کھلاڑیوں کے انداز اور رویوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس ملک میں لوگوں کے مذہبی رجحانات کیسے تبدیل ہو رہے ہیں۔ ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی آپ کو برازیلی کھلاڑی اپنے ہاتھوں سے صلیب بناتے ہوئے اور کیتھولک عیسائیت کی دیگر علامات کے ذریعے اظہارِ تشکر کرتے دکھائی دیں گے لیکن ان کے اشاروں سے آپ کو یہ معلوم نہیں ہوگا کہ گذشتہ برسوں میں برازیل میں عیسائیت کے احکامات اور تعلیمات کا اظہار کتنا زیادہ ہوا ہے۔ سنہ 2002 کے عالمی کپ کے فائنل میں برازیل کی کامیابی پر پوری ٹیم نے نا صرف ایک بڑے دائرے میں گھٹنوں کے بل بیٹھ کر دعا کی تھی بلکہ کچھ کھلاڑیوں نے اپنی شرٹیں پھاڑ کر اپنے جمسوں پر کندہ نعرہ بھی دکھایا تھا: ’ میرے مالک یسوع مسیح ہیں۔‘ سولہویں صدی میں جب پرتگالیوں نے برازیل کو اپنی نو آبادیوں میں شامل کیا، تو اس سے پہلے ہی اس ملک کی بہت بڑی اکثریت کیتھولک عیسائیوں پر مشتمل تھی۔ سنہ 1940 تک برازیلیوں کی 99 فیصد آبادی کیتھولک تھی اور اب یہ تناسب 63 فیصد ہے۔
دوسری جانب گذشتہ برسوں میں برازیل میں پروٹسٹنٹ چرچوں میں جانے والے لوگوں کی تعداد میں بھی مسلسل اضافہ ہوتا رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اسلام، بدھ مت اور دیگر افریقی برازیلی مذاہب کے ماننے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح ان برسوں میں ملک میں ملحد لوگوں کی تعداد بھی بڑھتی رہی ہے اور سنہ 2010 کی مردم شماری کے مطابق برازیل کی دو سو کروڑ کی آبادی میں سے آٹھ فیصد کا کہنا تھا کہ ان کا کوئی مذہب نہیں۔ برازیل میں مذہب کی اصل کہانی یہ ہے کہ یہاں ’نیو۔ پینٹکوسٹلسٹ‘ کی مذہبی روایت بہت تیزی سے ساتھ پھیلی ہے۔ ’روح کی طاقت سے بھری ہوئی‘ اس عیسائیت میں ایمان کی طاقت سے زخموں کا علاج اور آپ کے جسم سے بدروحوں کو نکالنے یا ’ایکسارسزم‘ کو بہت مانا جاتا ہے۔ عیسائیت کی یہ قسم 20ویں صدی کے آغاز میں امریکہ سے یہاں پہنچی اور سنہ 1970 کے عشرے میں برازیل کے مختلف علاقوں میں نیو پینٹیکوسٹلسلٹ روایت سے منسلک چرچ کھْلنا شروع ہو گئے تھے۔ چرچوں کی اس نئی قسم نے برازیلی لوگوں کی زندگیوں میں مذہب کے ایک نئے رجحان کو فروغ دیا جس میں عیسائیت کی دیگر اقسام کے برعکس دولت کے حصول کو اچھا گردانا گیا۔ اس طرح یہ مذہبی روایات برازیل کے متوسط طبقوں میں مقبول تر ہوتی گئیں۔ شروع شروع میں دیگر مذہبی لوگوں کی طرح نیو پینٹیکوسٹلسٹ روایت کے مبلغین نے بھی فٹ بال کو ناپسند کرتے ہوئے اس ’شیطان کے انڈے‘ کے لقب سے نوازا۔ لیکن اب یہ لوگ بھی فٹ بال کو ایک بڑے کاروباری یا مارکیٹنگ کے ہتھیار کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ٹیلی ویڑن پر خطبے دینے والے مبلغین جانتے ہیں کہ ٹی وی پر سب سے زیادہ دیکھی جانے والی چیز فٹ بال کے میچ ہیں، اس لیے وہ فٹ بال دیکھنے والے ناظرین تک اپنا پیغام بہت تیزی سے پھیلا سکتے ہیں۔ سانتا کترینا کی یونیورسٹی سے منسلک بشریات کی ماہر پروفیسر کارمن ریال کا کہنا ہے کہ انھوں نے فٹ بال کے ساٹھ کھلاڑیوں کو انٹرویو کیا اور وہ یہ دیکھ کر حیران ہو گئیں کہ وہ تمام کے تمام مذہبی خیالات رکھتے تھے۔نا صرف یہ بل کہ بیشتر کھلاڑی اپنی کمائی کا دسواں حصہ چرچ کے نام کر دیتے ہیں۔ پروفیسر ریال کہتی ہیں کہ پہلے پہل فٹ بال کے کھلاڑیوں کی شہرت یہ تھی کہ وہ لا ابالی اور ’ کھلنڈرے‘ ہوتے ہیں۔ ’وہ بہت ہی تھوڑے وقت میں اتنے زیادہ پیسے بنا لیتے ہیں کہ انھیں ہر قسم کی ترغیبات کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے۔ یہ لڑکے ڈانس، نائٹ کلب کے عادی ہو جاتے ہیں اور بہت سے لڑکیوں میں گھرے رہتے ہیں۔‘ لیکن اب یہ بدل رہا ہے اور برازیل میں فٹ بال اور مذہب کا ساتھ چولی دامن کا ہوگیا ہے۔