کابل میں سہ فریقی اجلاس ختم ہوگیا جس میں پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف بھی شریک تھے ۔ اس میں ناٹو یا ایساف کے فوجی سربراہ اورافغان فوج کے سربراہ کے علاوہ دیگر ا ہم افغان شخصیات نے بھی شرکت کی ۔ مجموعی طورپر علاقائی سلامتی کی صورت حال پر بحث مباحثہ ہوا ۔ اس دوران ناٹو افواج کے سربراہ اور افغان وفد کے رہنماؤں نے پاکستان سے امداد کی درخواست کی تاکہ آئندہ صدارتی انتخابات پر امن ماحول میں ہوسکیں ۔پاکستانی وفد نے وعدہ کیا کہ ان کا ملک ضروری تعاون فراہم کرے گا تاکہ دوسرے دور کے صدارتی انتخابات پر امن ہوں اور پاکستان کے سرحدوں کو مزید محفوظ بنایا جائے گا تاکہ مداخلت کار پاکستان سے افغانستان میں داخل نہ ہوں اور نہ وہ اس قابل ہوں کہ پاک سرزمین کا غلط استعمال کرسکیں اور افغانستان میں بد امنی پھیلائیں ۔ اس میں دو رائے نہیں ہیں کہ پر امن اور مستحکم افغانستان پاکستان کے مفاد میں ہے ۔ آج کل جو مشکلات پاکستان کو درپیش ہیں دراصل وہ افغان خانہ جنگی کی وجہ سے ہیں یعنی دیکھا جاسکتا ہے کہ افغانستان کی مشکلات بعینیہ پاکستان میں داخل ہوگئیں ۔ اس لئے پاکستان کا مفاد اسی میں ہے کہ افغانستان میں خانہ جنگی کا جلد سے جلد خاتمہ ہو اور وہاں دائمی امن قائم رہے ۔ یہ ایک انتہائی اہم دور ہے کہ افغانستان میں دوسرے دور کے صدارتی انتخابات ہورہے ہیں ۔ دو امیدواروں کے درمیان دلچسپ مقابلے کی توقع ہے ۔ افغانستان کی طاقتور قوتیں عبداللہ عبداللہ کی حمایت کررہی ہیں جو ایک مضبوط امیدوار ہوں گے۔ ظاہرہے پاکستان اس انتخابی عمل میں مداخلت کرنا نہیں چاہتا اور نہ ہی اس بات کی اجازت دے سکتا ہے کہ پاک سرزمین افغانستان میں عدم استحکام کا سبب بنے اور خانہ جنگی زیادہ طویل ہوجائے ۔اس لئے پاکستانی وفد نے اپنے تعاون کا یقین دلایا اور اس توقع کے ساتھ کہ افغانستان اور ناٹو افواج کا رویہ بھی مثبت ہوگا جب پاکستان کو ان کی امداد کی ضرورت پڑے گی ۔شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ طالبان کسی بھی وقت اپنی کارروائیاں شروع کرسکتے ہیں ۔ طالبان کے رہنماؤں ملا فضل اللہ کا ویڈیو پیغام صاف اور واضح ہے کہ وہ پاکستان میں قانونی حکومت کا تختہ الٹ دیں گے اور یہاں پر اسلامی امارت قائم کریں گے۔ یہ وقت کی بات ہے کہ کب طالبان کی تیاریاں مکمل ہوں گی اور وہ پاکستانی افواج پر حملہ آور ہوں گے۔ جوابی کارروائی کے دوران حکومت پاکستان یہ جائز توقعات رکھے گی کہ افغان اور ناٹو افواج بھی پاکستان سے تعاون کریں گے اور طالبان کے افغانستان فرار ہونے کے تمام راستے بند کریں گے تاکہ پاکستانی افواج کی جوابی کارروائی کامیاب ہو اور دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کا اس پورے خطے سے خاتمہ ہوجائے۔ پاکستانی افواج کو یہ تعاون شمالی اور جنوبی وزیرستان سے متعلقہ علاقوں میں ضرورت پڑے گی جہاں پر جہادی کیمپ قائم ہیں اور وہاں لوگوں کو فوجی تربیت دی جاتی ہے ۔ یہ صو رت حال بہت جلد سامنے آجائے گی کیونکہ افغان افواج اپنے علاقوں میں افغان طالبان کے خلاف بھرپور کارروائیوں میں مصروف ہیں ۔ ناٹو افواج ان کارروائیوں میں فضائیہ کو بھی استعمال کررہی ہے جو کامیابی رہی ۔ افغان طالبان کا ان حملوں میں بہت نقصان ہوا شاید سیکورٹی افواج پاکستان میں بھی فضائیہ کا بھرپور استعمال کریں گے کیونکہ پاکستانی طالبان کا کمانڈ اینڈ کنٹرول نظام، اسلحہ کے ڈپو پہاڑوں میں ہیں جہاں پر پیدل افواج مشکل سے پہنچ سکتے ہیں اور وہ بھی بہت زیادہ نقصانات کے ساتھ۔ لہذا گمان یہی ہے کہ فضائیہ کا بھرپور استعمال ہوگا اس خطرے کے پیش نظر زیادہ غیر ملکی جنگ جو راہ فرار اختیار کررہے ہیں وہ اس حد تک پہنچ گئے ہیں کہ انہوں نے حکومت پاکستان اور مسلح افواج سے ملک چھوڑنے کیلئے محفوظ راستہ طلب کر لیا ہے ۔