چین میں تین محقق 105 روز سے بیجنگ کی ایک لیبارٹری میں بند کیڑے کھا رہے ہیں تاکہ اس بات کا تعین کیا جا سکے کہ کیا خلاباز کیڑوں کو پروٹین کے حصول کے مرکزی ذریعے کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں یا نہیں۔
اخبار ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ کا کہنا ہے کہ یہ رضا کار محققین بیجنگ یونیورسٹی آف ایروناٹکس اینڈ ایسٹروناٹکس کے ’مون پیلس بائیوسفیر‘ میں یہ تجربہ کر رہے ہیں۔ اس تجربے کے لیے انھوں نے لوبیے کی چٹنی اور دیگر سیزننگ استعمال کی ہے تاکہ ان کا ذائقہ قابلِ برداست ہو سکے۔
خلابازوں کو پروٹین سے بھرے کیڑے کھلانے کی بات پہلی مرتبہ 2009 میں کی گئی تھی تاہم مغربی ممالک کے خلائی اداروں کا خیال تھا کہ اس سے خلابازوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ تاہم محقق ہو داوے کا کہنا ہے کہ ان کے تجربے میں اب تک رضا کار ’خوش اور صحت مند‘ رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کا ادارہ برائے خوراک اور زراعت کہہ چکا ہے کہ کھائے جانے والے کیڑوں پر مبنی خوراک پروٹین کا متبادل ذریعہ ہو سکتی ہے۔
ہو داوے کہتے ہیں کہ ’رضاکاروں کو اس کا عادی ہونے میں وقت ضرور لگا۔ ان میں سے کسی نے پہلے کبھی کیڑوں کو کھانے کے طور پر استعمال نہیں کیا تھا۔ اگرچہ کیڑے بظاہر گندے نظر آتے ہیں لیکن یہ کھانے کے لیے صاف ترین اور صحت مند ترین خوراک ہیں۔‘
تاہم ایک ریسٹورانٹ کے مالک کا کہنا ہے کہ کیڑوں کی خوراک کا سن کر بہت سے لوگ خلاباز بننے کا خواب چھوڑ دیں گے۔
چینی حکام اس تجربے کے نتائج کا جائزہ آئندہ خلائی مشن کے لیے لیں گے۔ چین نے 2003 میں پہلی بار کسی شخص کو خلا میں بھیجا اور 2023 تک وہ ایک خلائی سٹیشن بھیجنے کا ارادہ رکھتا ہے۔