|

وقتِ اشاعت :   May 23 – 2014

آخر کار حکومت کو فضائی کارروائی کا فیصلہ کرنا پڑا ۔شمالی وزیرستان کے بعض علاقوں اور انتہا پسندوں کے ٹھکانوں پر حملے کیے گئے جس میں اطلاعات کے مطابق 73جنگجو ہلاک ہوگئے۔ پاکستانی فضائیہ کے جیٹ طیاروں اور ہیلی کاپٹر گن شپس نے جنگجوؤں کے معروف ٹھکانوں پر بمباری کی ۔ ان کا ٹارگٹ غیر ملکی جنگجو تھے جن کا تعلق ازبکستان اور چینی ترکستان سے تھا۔ چین آئے دن خاموش سفارت کاری سے پاکستان کی حکومت سے احتجاج کرتا رہا ہے کہ چینی ترکستان کے جنگجو ؤں نے چین کے اندرسنکیانگ میں دہشت گردی کے واقعات کیے جن میں درجنوں لوگ ہلاک ہوگئے۔ تازہ ترین خبر یہ آرہی ہے کہ ارومچی سنکیانگ میں دوکار بم دھماکے ہوئے ہیں ان میں درجنوں ہلاکتیں ہوئی ہیں ۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق یہ دھماکے بازار میں ہوئے جن میں درجنوں دکانیں تباہ ہوگئیں اور تیس سے زائد لوگ ہلاک ہوگئے ۔ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ یہ دھماکے یوگر قوم پرستوں نے کیے ہیں جو چین سے اپنے وطن کی آزادی کی جدوجہد کررہے ہیں ۔ ان میں سے بعض لوگ شمالی وزیرستان میں موجود ہیں جن کو پاک فضائیہ کے جیٹ طیاروں نے نشانہ بنایا ۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ یوگر قوم پرستوں نے ان فضائی حملوں کے خلاف ارومچی میں دو کار بم دھماکے کیے ہیں ۔ اس سے قبل یہ اطلاعات تھیں کہ غیر ملکی جنگجو خصوصاً یوگر اور ازبک انتہا پسند حکومت پاکستان سے محفوظ راہداری چاہتے تھے کہ وہ پہلے افغانستان اور بعد میں مشرق وسطیٰ میں اپنی کارروائیاں شروع کردیں ۔ ان کو یہ یقین تھا کہ پاک افواج ان پر موجودہ صورت حال میں حملہ آور ہوں گی اور ان کو شدید نقصانات اٹھانے پڑیں گے۔ حکومت پاکستان نے ان کو محفوظ راہداری نہیں دی اور دوسری جانب افغان اور ناٹو افواج نے ان کے افغانستان فرار ہونے کے راستے بند کردئیے تاکہ پاک فضائیہ کے جیٹ ان ٹھکانوں کو مکمل طورپر تبارہ کردیں جو پاکستان اور افغانستان کے خلاف استعمال ہورہے تھے۔ فضائی حملوں کے بعد صورت حال یکسر بدل گئی ہے داخلی سلامتی کے لئے حکومت فوج سے امداد طلب کر سکتی ہے کہ راوالپنڈی اور اسلام آباد کو طالبان کے دہشت گردانہ حملوں سے محفوظ بنایا جائے اور جڑواں شہروں کو فوج کی نگرانی میں دیا جائے ۔ فضائی کارروائی سے متعلق سرکاری ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ طالبان کے ظالمانہ کارروائیوں کی وجہ سے فضائی حملے کرنے پڑے ۔ خصوصاً طالبان کے حملے کراچی ‘ فاٹا اور کے پی کے کے بعض علاقوں میں ہوئے۔ ویسے بھی طالبان سے مذاکرات کا کوئی جواز نہیں تھا اور نہ ہے ۔ اس کے لئے خوامخواہ حکومت نے اپنا وقت ضائع کیا اور طالبان اور ملاؤں کو غیر ضروری پبلسٹی دی گئی ۔ ان کا واضح اعلان ہے کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان اور اس کے آئین کو نہیں مانتے اور بزور طاقت پاکستان میں حکومت کا تختہ الٹ دیں گے۔ افواج پاکستان کو شکست دیں گے اور یہاں پر اسلامی امارت قائم کریں گے جہاں پر وہ اپنے پسند کا نظام نافذ کریں گے۔ اس کے لئے انہوں نے اپنی نجی فوج بھی بنائی ہے جو افواج پاکستان کے خلاف جنگ کرتی ہے ۔ اس لئے رائے عامہ طالبان اور ان کے حمایتی ملاؤں اور سیاسی لیڈروں کے خلاف ہے اور عوام الناس نے حکومت پر اپنا دباؤ برقرار رکھا کہ ان کی فوجی قوت کو ختم کیاجائے ۔ ان کی تربیت کے ذرائع کمانڈ اور کنٹرول کو بھی تباہ کیاجائے تاکہ ملک میں بھی یہ ایک منظم قوت نہ بنے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے لیے خطرہ نہ بنیں اور نہ ہی ہمارے پڑوسیوں خصوصاً چین اور دیگر ممالک کو شکایات کا موقع ملے کہ ان کے خلاف جنگجو پاکستان کی سرزمین استعمال کررہے ہیں ۔ وہاں تربیت حاصل کرکے اور اسلحہ لے کر دوست مماملک پر بھی حملہ آور ہوتے ہیں ۔