کوئٹہ ( پ ر) بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن ( آزاد ) کے مرکزی چیئرمین زاھد بلوچ کے جبری اغواء نما گرفتاری کے خلاف بی ایس او ( آزاد) کا کراچی پریس کلب کے سامنے تادم مرگ بھوک ہڑتالی کیمپ آج پنتیسویں دن میں داخل ہوگئی آج 35دن گذرنے کے باوجود وہ بھوک ہڑتال پر بیٹھے ہوئے ہیں ۔ ان کی حالت انتہائی نازک بتائی جاتی ہے، جسمانی طور پر ان کی حالت انتہائی ناگفتہ بے ہے ، جس تیزی سے انکی حالت بگڑتی جارہی ہے یہ خدشہ ظاھر کیا جارہا ہے کہ کسی بھی وقت انکے جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ، لیکن ان کے اس حالت زار کے باوجود ابھی تک کوئی حکومتی یا کوئی بین الاقوامی نمائیندہ ان سے ملنے نہیں آیاہے ۔ بھوک ہڑتالی کیمپ کو 35دن گذرنے کے باوجود اظہار یکجہتی کیلئے مختلف سیاسی ، سماجی اور انسانی حقوق کے کارکن کیمپ کا دورہ کرتے رہے ۔ آج اظہارِ یکجہتی کیلئے آنے والوں میں سول سوئٹی ، بی این ایم ،بی آرپی ،این ایس ایف اور کر اچی کی عوام بھی شامل ہیں ۔ اس موقع پر اظہار یکجہتی کیلئے آنے والوں نے بی ایس او ( آزاد) کے مرکزی چیئرمین زاھد بلوچ کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ لطیف جوھر بلوچ کی یہ قربانی اور خود اذیتی احتجاج صرف زاھد بلوچ یا بلوچ قوم کیلئے نہیں بلکہ یہ احتجاج ہر اس انسان کیلئے ہے جو کسی بھی قسم کے طبقاتی ، ریاستی ، نسلی ، لسانی یا فرقہ واریتی جبر کا شکا ہے، یہ احتجاج انسانیت اور انسانی حقوق کی سربلندی کیلئے ہے ، اب ہر ذی شعور انسان پر یہ فرض عائد ہوتی ہے کہ وہ چاہے دنیا کے کسی بھی کونے میں ہے کسی بھی رنگ ، نسل ، قوم یا مذہب سے تعلق رکھتا ہے لطیف بلوچ کا ساتھ دینے کیلئے اٹھ کھڑے ہوجائیں اور اس جبری نظام اور استبدادیت کیخلا ف اپنی صدائے احتجاج بلند کریں ۔ ۔ احتجاجی کیمپ میں موجود بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن ( آزاد) کے مرکزی قائم مقام چیئرمین بانک کریمہ بلوچ نے اس موقع پر اظہار یکجہتی کیلئے آنے والوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح لطیف جوھر بلوچ نے اپنی جان اور صحت کی پرواہ کیئے بغیر اس پر امن احتجاجی راستے کو اختیار کیا ہے یہ پر امن سیاست پر یقین رکھنے والوں کیلئے امید کی ایک کرن کی حیثیت رکھتی ہے ، ہم بارہا کہہ چکے ہیں کہ بی ایس او ( آزاد) پر امن طریقہ سیاست پر یقین رکھتی ہے لیکن مختلف جواز گھڑ کر جس طرح سے ریاستی اداروں کی جانب سے بی ایس او ( آزاد) کو سبوتاژ کرنے کی سعی کی جارہی ہے اس کی حقیقت لطیف جوھر بلوچ کے اس بھوک ہڑتال نے افشاں کردی ۔ زاھد بلوچ ایک معمولی انسان نہیں وہ خداداد صلاحیتوں کے مالک ایک سیاسی کارکن ہیں اور اسی بی ایس او ( آزاد) کے چیئرمین ہیں ، اگر بی ایس او ( آزاد) تشدد آمیز سیاست پر یقین رکھتا تو پھر زاھد بلوچ کبھی کوئٹہ میں تنظیم کاری نہیں کر رہے ہوتے اور آج اسی بی ایس او ( آزاد) کے مرکزی رہنما بھوک ہڑتال پر نہیں بیٹھے ہوتے لیکن ایک پر امن سیاسی کارکن اور سیاسی قائد کو جس طرح سے سر راہ اغواء کرکے دو مہینوں سے لاپتہ رکھا گیا ہے یہ نا صرف بنیادی انسانی حقوق کی توہین ہے بلکہ ایک انسان کو حاصل سیاسی آزادی کو بھی صلیب پر لٹکانے کے مترادف ہے ۔جس معاشرے میں جب ایک سیاسی کارکن کو یہ تک آزادی نا ہو کہ وہ آسانی سے نقل و حرکت کرسکے تو پھر اس معاشرے میں امن و انصاف کی توقع صرف دیوانے کی خواب کی سی حیثیت رکھتی ہے۔