|

وقتِ اشاعت :   May 28 – 2014

بہت ہی سخت جان قسم کا بندہ لگتا ہے، ایک ماہ گزرنے کے باوجود بھی اپنی ضد پر اڑا ہوا ہے، بھوک ہڑتال ختم کرنے کا نام ہی نہیں لیتا۔کراچی پریس کلب کے سامنے سگریٹ کا ایک لمبا کش لیتے ہوئے رشید نے اپنے دوست اورسابق پڑوسی کو بھوک ہڑتالی کیمپ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ہاں بات تو تمھاری درست ہے، وحید نے اثبات میں سرہلا دیا۔ پچھلے ایک ماہ کے دوران بڑی تعداد میں اظہار یکجہتی کی خاطر لوگوں نے اس کیمپ کا دورہ کیا، تصاویر بنائیں اور کچھ دیر بیٹھ کر اپنے گھروں کو ہولیے مگر بھوک ہڑتالی ٹھس سے مس نہیں ہوئے، سگریٹ کا پیکٹ وحید کی جانب بڑھاتے ہوئے رشید نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ مگر اس بار کوئی اہم حکومتی شخصیت اس جانب نہیں آیا۔پچھلے بار مسنگ پرسنز کے احتجاجی کیمپ میں وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف اور سینیٹر حاصل بزنجو آئے تھے۔ بھائی جان لگتا ہے آپ بھول گئے ہیں، اس بار حامد میر زخمی ہونے کی وجہ احتجاجی کیمپ میں اپنا پروگرام نہیں کررہے تو کیوں کر اور کس خوشی میں حاصل بزنجو یہاں آئیں، اور رہی بات وفاقی وزیر خواجہ آصف کی تو وہ کون سا خود آئے تھے، انہیں تو سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ہدایت کرکے بھیجا تھا۔وحید نے رشید کو لقمہ دیا اور سگریٹ کا ایک لمبا کش لے کر خلا کی جانب گورنے لگا۔ دونوں دوستوں کا ایک لمبے عرصے پر آمنا سامنا ہوا تھا، اسکول اور کالج کی تعلیم کے بعد وحید اپنے والدین کے ہمراہ برنس روڈ سے گلشن اقبال منتقل ہوگیا تھا۔فون پر کبھی کبھار بات ہوجا یا کرتی تھی مگر ملاقات نہیں ہوپائی تھی۔ آج ملاقات کا یہ موقع اچانک ہاتھ آگیا تھا۔ رسمی سلام دعا اور گھر والوں کی خیریت دریافت کرنے کے بعد ملکی سیاست اور حالات حاضرہ پر بات چل نکلی ، اور بلوچستان اشو کے ذکر پر دونوں کی نظریں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائیزیشن کے بھرک ہڑتالی کیمپ پر جم گئیں۔ رشید کہنے لگا یار انہیں پتا بھی ہے ان کے لاپتہ ہونے والے لوگ اس طرح کے احتجاجوں سے بازیاب ہونے والے نہیں مگر پھر بھی اپنی جان مشکل میں ڈالتے ہیں، بے وقوفی کی حد تک کے بہادر لوگ لگتے ہیں، یہ کہنے کے بعد وہ اپنے بال سہلانے لگا۔ اور ہاں میں نے تو یہ بھی سنا ہے کہ بھوک ہڑتال پر بھیٹنے والے اس لڑکے ، کیا نام ہے اس کا، ہاں یاد آیا لطیف جوہر، کا وزن بیس کلو تک کم ہوگیا ہے اور ڈاکٹر ز کی ہدایت کے باوجود بھی کچھ کھانے اور پینے سے انکاری ہے، کس مٹی کا بنا ہوا ہے، سمجھ میں نہیں آتا، یہ کہہ کروحید نے آنکھوں سے دھوپ کا چشمہ اتارا اور اسے ایک کپڑے سے صاف کرنے لگا۔ ایک بات تو بتاؤ، ایک قدرے غیر معروف اسٹوڈنٹ لیڈر زاہد بلوچ کی بازیابی کے لیے اپنی جان کو داؤ پہ لگا نا کہاں کی عقلمندی ہے اور اوپر سے اس کی گمشدگی اور لاپتہ کیے جانے کا الزام بھی خفیہ اداروں اور اسٹیبلشمنٹ پر عائد کیا جارہا ہے، اب بتاؤ کون ان کی مدد کو آئے گا، کون ہے جو بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال کر اپنا مستقبل برباد کرے گا۔ایک طویل سانس لینے کے بعد رشید پھر گویا ہوا اور کہنے لگا انہیں تو ملک کے سب سے بڑے اشاعتی ادارے سے ہی سبق سیکھ لینا چاہیے، صرف چند گھنٹوں کے لیے ہی انہوں نے ایک طاقتور ادارے سے پنگا لیا، اور وہ دن ہے اور آج کا دن، ایک گھنٹے کے لیے بھی انہیں سکون نصیب نہیں ہوا، معافی مانگ کر بھی گلو خلاصی نہیں ہوپارہی ، اور ان فٹ پاتھیوں کی خواہش ہے کہ ان تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کرایا جائے جو تحویل میں ہیں،چہ پدی اور چہ پدی کی شوربا۔ رشید کی اس منظر کشی پروحید کچھ دیر خاموش رہا اور پھر کہنے لگا مگر ان کا مطالبہ کچھ غلط بھی نہیں ہے، یہ لاپتہ افراد کی بازیابی اور ان کی عدالتوں کے سامنے پیشی ہی تو چاہتے ہیں، اور ان کے لانگ مارچوں، احتجاجوں اور بھوک ہڑتالوں سے بیرون ملک پاکستانن کی بدنامی بھی تو ہوتی ہے نا۔ ارے بھائی تم کس دنیا میں رہتے ہو، بدنامی تو ان کی ہوتی ہے جو نیک نام ہوں، کرپشن کے میدان میں ہم ہمالیہ سر کرنے کو ہیں، دنیا کے تین پولیو زدہ ملکوں میں ہمارا نام شامل ہے، بیرونی دنیا میں ہمارا سبز پاسپورٹ دیکھ کر ہی ہمارے لیے ایک علیحدہ لائن بنا دی جاتی ہے، دہشت گردی اور انتہا پسندی ہمارے گلے کے ہار ٹہرے، اسامہ بن لادن سمیت دنیا کے تمام بڑے مطلوب افراد ہمارے یہاں سے برآمد ہوتے ہیں، عدم برداشت کی یہ حالت کہ مسجد، امام بارگاہ ، مندر اور چرچ تک محفوظ نہیں،اور ہاں ایک بات تو بتانا بھول ہی گیا، سنا ہے کہ یہ جو لا پتہ افراد ہیں نا یہ تو مٹھی بھر ہیں، ان کی تعداد بڑھا چڑھا کر پیش کی جاتی ہے، ان میں زیادہ تر دہشت گرد کاروائیوں میں ملوث ہیں، یہ ملک دشمن ، غدار اور آزادی پسند ہیں، ان کی زیادہ حمایت نہ کرو، سمجھے، ورنہ تمھارے اہل خانہ بھی احتجاج کرنے والوں میں شامل ہوجائیں گے۔۔ یہ کہہ رشید نے وحید سے ہاتھ ملایا اور دوبارہ ملنے ک وعدہ کرکے چلا گیا۔