کراچی ( ظفراحمدخان)وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک نے کہا ہے کہ عسکری قوت ہو یا سیاسی قیادت ہم سمجھتے ہیں کہ بلوچستان کا مسئلہ حل ہونا چاہئے۔ بلوچستان میں اتنی چیزیں بگڑ چکی ہیں کہ انکو کنٹرول کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن حالات کسی بھی وقت خراب ہو سکتے ہیں۔ ابھی تک گولیوں سے چھلنی لاشیں ملنے کا سلسلہ رکا نہیں ہے۔بلوچستان 30سال سے حالت جنگ میں ہے۔اغوا،ٹارگٹ کلنگ،مسخ شدہ لاشیں،انسرجنسی بلوچستان کے حالات کی خرابی کی بڑی وجہ ہیں۔قبائلی جھگڑوں اوردہشت گردی کی وجہ سے بلوچستان کے عوام مسائل سے دوچارہیں۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کراچی پریس کلب کے باہر بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (آزاد) کے چیئرمین زاہد بلوچ کی بازیابی کیلئے لطیف جوہر بلوچ کے تادم مرگ بھوک ہڑتالی کیمپ کا دورہ کیا اور لطیف جوہر بلوچ کی عیادت کی اور ان سے بھوک ہڑتال ختم کرنے کی درخواست کی۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ وفاق نے ناراض بلوچ رہنماؤں اور جماعتوں سے رابطے کیلئے اختیارات کے ساتھ مینڈیٹ دیدیا ہے۔ زاہد بلوچ کو کس ادارے نے حراست میں لیا ہے مجھے معلوم نہیں لیکن یقین دلاتا ہوں کہ انکی بازیابی کیلئے وفاق سمیت ہر ادارے سے رابطہ کروں گا۔ بلوچ رہنماؤں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ مذاکرات کی ٹیبل پر آئیں بیٹھ کر بات کریں، انکے مسائل بھی سنے جائیں گے۔ لاپتہ افراد کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے سنجیدہ کوششیں کر رہے ہیں۔ امید ہے مسئلہ جلد حل ہو جائیگا۔ لاپتہ افراد کے حوالے سے بنائے گئے کمیشن کی رپورٹ جلد منظر عام پر آجائیگی۔ بلوچستان کے مسائل کا حل بات چیت کے ذریعے نکالا جائیگا۔ منتخب وزیراعلیٰ ہوں جھوٹا وعدہ نہیں کرونگا۔ زاہد بلوچ کو جانتا ہوں وہ بی ایس او میں میرے ساتھ رہے ہیں۔ میں بھی بی ایس او کا سیاسی کارکن تھا تاہم میرے ان سے سیاسی اختلافات ہوگئے تھے۔ اس موقع پر بی ایس او کی وائس چیئر پرسن کریمہ بلوچ نے کہا کہ زاہد بلوچ کے آپ سے سیاسی نہیں نظریاتی اختلافات ہوئے۔ آپ بلوچ عوام کے نمائندے ہیں۔ ان کے مسائل حل کریں۔ کریمہ بلوچ کاکہناتھاکہ زاہدبلوچ کوآئی ایس آئی اورایف سی کے اہلکاروں نے کوئٹہ سے اغواکیا۔بلوچستان میں سیکیورٹی اداروں کی جانب سے ہزاروں افرادکولاپتاکیاگیا۔ریاستی ایجنسیاں بلوچوں کولاپتاکررہی ہیں۔بلوچستان میں مسخ شدہ لاشیں مل رہی ہیں۔خضدارمیں اجتماعی قبروں کادریافت ہونالمحہ فکریہ ہے۔پاکستان کے اداروں کے پاس بلوچستان کے مسائل کاکوئی حل نہیں۔عالمی اداے ،اقوام متحدہ زاہدبلوچ کی بازیابی میں اپناکرداراداکریں۔ لطیف بلوچ نے وزیراعلیٰ بلوچستان کی اپیل کے باوجود بھوک ہڑتال ختم کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ حکومت بس اتنا بتادے کہ زاہد بلوچ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تحویل میں ہیں۔ میں بھوک ہڑتال ختم کردوں گا۔بعدازاں کراچی پریس کلب میں گورننگ باڈی اراکین اورصحافیوں سے گفتگوکرتے ہوئے وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ بلوچستان کے معاملات پر پیش رفت ہورہی ہے، وفاقی حکومت کی جانب سے بلوچستان کو700میگاواٹ بجلی آئندہ ہفتے ملے گی، جبکہ مزید800میگاواٹ بجلی چند ماہ میں سسٹم میں شامل ہو جائیگی۔ گوادر پورٹ کا چیئرمین بلوچ کو لگانے، بورڈ آف ڈائریکٹرز میں بلوچوں کو شامل کرنے، دو نیشنل ہائی ویز کوئٹہ تا رتوڈیرو، کوئٹہ تا دالبندین سڑکیں بنانے پر بھی پیش رفت ہورہی ہے۔ وفاق سے کہہ دیا تھا کہ گوادر مقامی لوگوں کے حوالے کریں۔ مذاکرات ہی بلوچستان کے مسائل کا حل ہے۔ لیکن بلوچستان کی صورتحال سے آنکھیں بند نہیں کر سکتے۔ مشکل حالات سے گزر رہے ہیں۔ پہلے کوئٹہ سے خضدار تک سفر کرنے کیلئے50مرتبہ آیتہ الکرسی پڑھتے تھے اب ایسی بات نہیں۔ اس موقع پر پریس کلب کے صدر امتیاز خان فاران، نائب صدر سعید سربازی، سیکرٹری عامر لطیف، جوائنٹ سیکرٹری شمس کیریو، اراکین گورننگ باڈی ارشاد کھوکھر، کفیل الدین فیضان، لیاقت مغل و دیگر موجود تھے۔ اس موقع پر کراچی پریس کلب کی گورننگ باڈی کی جانب سے انہیں اجرک اور ٹوپی کا تحفہ پیش کیا گیا۔