|

وقتِ اشاعت :   May 28 – 2014

اسلام آباد: منگل کو بھی ایک جج کے خلاف جاری الزامات کا سلسلہ سپریم کورٹ کی توجہ کا مرکز بنا رہا۔ جسٹس جواد خواجہ جو اس رسواکن مہم کا مرکز تھے، انہوں نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ وہ اس بات کا پتہ لگائیں کہ کون عدلیہ جیسے ایک اہم قومی ادارے کی ساکھ پر حملہ کرنے اور اس کو نقصان پہنچانے کی کوشش کررہا ہے۔ جسٹس جواد خواجہ کی سربراہی میں تین ججز پر مشتمل ایک بینچ نے پینتس قیدیوں کے مقدمے کی سماعت کی، جو مالاکنڈ کے فوجی حراستی مرکز سے لاپتہ ہوگئے تھے۔ تاہم جب سیکریٹری داخلہ شاہد خان اور انٹیلی جنس بیورو کے ڈائریکٹر جنرل آفتاب سلطان عدالت کے سامنے پیش ہوئے تو جسٹس جواد خواجہ نے دارالحکومت میں راتوں رات شروع ہونے والی ہتک آمیز اور اشتعال انگیز مہم پر افسوس کا اظہار کیا۔ جسٹس جواد خواجہ نے جیو کی درخواست پر کارروائی کے دوران اپنے ناقدین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’وہ نااہل اور غافلون ہیں۔‘‘ ان دونوں حکام کو پیر کے روز طلب کیا گیا تھا اور ان سے کہا گیا تھا کہ بدھ کے روز اسی بینچ کے سامنے پیش ہو کر ان بینرز کے پس پردہ راز کی وضاحت کریں۔ یہ تنازعہ منگل کے روز اس وقت زیرِ بحث آیا جب اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے پینتس لاپتہ افراد کے معاملے کی ایک سربہ مہر خفیہ رپورٹ عدالت کے سامنے پیش کی، لیکن جسٹس خواجہ نے کہا کہ عدالت اس معاملے پر بعد میں غور کرے گی اور پیر کی رات نشر ہونے والے ایک ٹیلیویژن ٹاک شو کا حوالہ دیا، جس میں ان کے خلاف توہین آمیز الزامات عائد کیے گئے تھے۔اس شو میں الزام لگایا گیا تھا کہ جج کا یہ فیصلہ طرفداری اور ان کے دل میں مسلح افواج کے خلاف شکایات کی وجہ سے تھا۔ جسٹس خواجہ نے کہا کہ ’’اگر مجھے ایک شکایت ہے تو مجھے اس کے خلاف کارروائی کرنی چاہیٔے، دوسری صورت میں اس ملک کے عوام کے سامنے سچ بیان کرنا چاہیٔے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کے الزامات ریاستی اداروں کے خلاف بیمار سوچ پیدا کریں گے۔ انہوں نے ان الزامات کے پسِ پردہ سوچ پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم پہلے ہی دہانے پہنچ چکے ہیں، اور یہ ایک مذاق بن جائے گا۔‘‘ اس کے علاوہ عدالت نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ اس ٹاک شو کا مسودہ پڑھیں ’’ہر ایک جانتا ہے کہ یہ ایک جھوٹ ہے۔‘‘ عدالت نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ وہ تلاش کریں کے قومی اداروں کے خلاف اس مہم کو کون اسپانسر کررہا ہے۔