|

وقتِ اشاعت :   June 1 – 2014

چار اکائیوں پر مشتمل ملک پاکستان کے حکمرانوں کی طرف سے اس بات کے عملی ثبوت کبھی نہیں ملے کہ ملک کے مختلف حصے یکساں ترقی کی دوڑ میں برابر شریک ہوں ۔اور نہ ہی ماہرین معاشیات نے اس امر کی تصدیق کی ہے کہ ترقی کے مواقع ملک کے مختلف حصوں کو ریاست کی جانب سے فراہم کیے گئے ہیں۔ پنجاب واحد ترقی یافتہ صوبہ ہے جہاں پر صوبائی ترقیاتی پروگرام پر 1500ارب روپے خرچ سالانہ ہورہے ہیں اور اتنی ہی رقم وفاق پنجاب کی ترقی کے لئے فراہم کررہی ہے ۔ بلوچستان میں صوبائی ترقیاتی فنڈ 1990ء کی دہائی تک صرف چند کروڑ پر مشتمل تھا۔ اس کے بعد ایک آدھ ارب روپے ترقیاتی پروگرام پر خرچ کیے گئے۔ گزشتہ تین سالوں میں ترقیاتی اخراجات چالیس ارب تک پہنچ گئے ۔ وفاق کا حصہ صرف 20ارب کے لگ بھگ ہے ۔ اسکا صاف مطلب یہ ہوا کہ بلوچستان جو ملک کا آدھا حصہ ہے اس پر صرف ساٹھ ارب روپے مجموعی طورپر صرف کیے جاتے ہیں ،ان میں کمیشن اور کرپشن بھی شامل ہے ۔ جبکہ پنجاب میں گزشتہ دو دہائیوں سے ترقیاتی اخراجات سو ارب کے لگ بھگ ہیں ۔ معاشی ماہرین یہ سوال پوچھتے ہیں پاکستان کیسے ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہوگا؟ جبکہ اس کا آدھا حصہ بلوچستان انتہائی پسماندہ ہے اور اسکا بنیادی ڈھانچہ تک 60سالوں میں تعمیر نہ ہو سکا۔ وفاق کاہر بڑا منصوبہ تیس سالوں میں مکمل ہوا ۔ مثلاً بولان میڈیکل کالج کا منصوبہ ساڑھے سات کروڑ روپے کی لاگت سے سردار عطاء اللہ مینگل کی حکومت میں شروع ہوا مگر یہ 2000کی دہائی میں 34ارب کی لاگت سے مکمل ہوا ۔دوسری مثال گوادر پورٹ ہے اس کے تین برتھ چین کے قرضے سے 2007میں تعمیر ہوئے ۔ اس دن سے لے کر آج تک اس پر ایک روپیہ بھی خرچ نہیں ہوا ۔ تین برتھوں کی تعمیر کو ڈیپ سی پورٹ کا نام دیا گیا جس کی کوئی تجارتی اہمیت نہیں ۔ دنیا بھر کے تجارتی اداروں نے اس پورٹ کو اس لئے نظر انداز کیا کہ اس میں بنیادی سہولیات پانی ‘ بجلی اور دوسری ضروریات زندگی کا فقدان ہے ۔ اس لئے حکومت پاکستان کو پورٹ کے اخراجات پورے کرنے کیلئے یوریا ‘سیمنٹ اور دوسری اشیاء کی ترسیل کراچی پورٹ کے بجائے گوادر پورٹ سے کرنی پڑی اور بعد میں ان اشیاء کو ٹرکوں میں لاد کر کراچی روانہ کیا گیا ۔ یہ صرف لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی بات تھی حقیقی معنوں میں گوادر پورٹ تعمیر نہیں ہوا اورنہ ہی رواں مالی سال میں گوادر پورٹ پر تعمیراتی کام شروع ہونے کے آثار ہیں کیونکہ حکومت پاکستان خود معاشی مشکلات کا شکار ہے ۔ اس کے پاس گوادر پورٹ کو مکمل کرنے کے وسائل نہیں ۔ جب تھے بھی تو خرچ نہیں کیے گئے گوادر پورٹ اور اس کی اہمیت کو نظر انداز کیاگیا ۔ اگر گوادر پورٹ مکمل ہوا ہوتا اور اس بندر گاہ کو وسط ایشیائی ممالک سے ریل اور سڑک کے ذریعے ملا دیا جاتا تو گوادر ریاست پاکستان کو سالانہ دس ارب ڈالر کما کر دیتا ۔ دوسرے ممالک کوتجارتی سہولیات فراہم کرنے کی صورت میں اس آمدنی میں اضافہ ہوسکتا ہے ۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب ٹرانزٹ تجارت بندر عباس سے ہورہی تھی اور بندر عباس اور وسط ایشیائی ممالک کا فاصلہ 2800کلو میٹر تھا جبکہ گوادر سے فاصلہ صرف 1400کلو میٹر ، اس وقت بین الاقوامی تجارتی ادارے زبردست دلچسپی کا اظہار کررہے تھے کہ تجارتی ترسیل کے اخراجات آدھے رہ جائیں گے۔ اسی دوران ایران نے چہاہ بہار کی بندر گاہ کو زبردست ترقی دی اور افغانستان تک سڑکوں کا جال بچھا دیا جس کی وجہ سے افغان اور بھارت تجارت ممکن ہوئی ۔ ایران اب بارہ ارب ڈالر صرف چہاہ بہار کی بندر گاہ سے کما رہا ہے اور گوادر پورٹ کے لئے پینے کا پانی اور بجلی نہیں ہے ۔ گوادر بلوچستان میں معاشی ترقی کی رفتار کو تیز کرنے کیلئے انجن کا کردار ادا کرسکتا تھا جس کو حکمرانوں نے نا ممکن بنا دیا ۔