ایک اخباری رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں چھ ہزار سے زائد اسکول دو کمروں پرمشتمل ہیں اور ہر ایک اسکول میں صرف ایک استاد ہے ۔ یہ صورت حال گزشتہ نصف صدی سے قائم ہے ۔ ایک استاد چار یا پانچ جماعتوں کے طلباء کو بیک وقت کیسے پڑھا سکتا ہے ۔ ظاہرہے ا س صورت حال میں طلباء علم کے حصول میں نظر انداز رہیں گے تاوقتیکہ تعلیمی میدان میں انقلابی تبدیلیاں نہیں لائی جاتیں ۔ وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور مشیر تعلیم سردار رضا محمد بڑیچ نے روز اول سے تعلیم کو اہمیت اور اولیت دی ہے اور اس کے بجٹ میں رواں مالی سال میں 24فیصد کا اضافہ کیا ہے ۔ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں اس میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے ۔ مقصد یہ ہے کہ تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے اور تعلیم کے شعبے کو زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کی جائیں ۔ انقلابی قدم تعلیم کے میدان میں یہ ہونا چائیے کہ بنیادی تعلیم پر زیادہ توجہ دی جائے اس کے لئے دو کمروں اور ایک استاد پر مشتمل تعلیمی نظام میں تبدیلی کی جائے اور ان کی جگہ جلد سے جلد اقامتی اسکول قائم کیے جائیں۔ ان میں درجنوں پرانے اسکولوں کو ضم کیاجائے اور زیادہ قابل اساتذہ کی خدمات حاصل کی جائیں ۔ پرانے اقامتی اسکولوں کا تجربہ انتہائی کامیاب رہا جہاں زیادہ ذہین طلباء اپنی اقامتی اسکولوں سے امتحانات اچھی پوزیشن حاصل کیں ۔ کیڈٹ کالج اسی نظام کے تحت کام کررہے ہیں ۔ بلوچستان میں یہ منصوبہ کار آمد ہوسکتا ہے کیونکہ یہاں پر فاصلے زیادہ ہیں اس لئے اقامتی اسکول دور دراز علاقوں میں قائم کیے جائیں اور بڑے بڑے شہروں میں اچھے اور معیاری اسکول قائم کیے جائیں تاکہ طلباء علم کے زیور سے آراستہ ہوں ۔ تعلیم کے میدان میں امتیازی سلوک روا نہ رکھا جائے ۔ انگریزی اسکول امراء اور اشرافیہ کے لئے اور کالے پیلے سرکاری اسکول غریب طلباء کے لئے ۔ یہ امتیاز فوری طورپر ختم ہونا چائیے اور سب بچوں کو یکساں معیار کے مطابق تعلیم دینا چائیے ۔ یہ حکومت کی طویل مدتی پالیسی ہو اور اس پر رفتہ رفتہ عمل کرکے چھوٹے چھوٹے اسکولوں کو بڑا بنایا جائے جہاں پر تعلیمی معیار برابر ہو ۔ نجی اسکولوں کی فیس کم کی جائے کیونکہ یہ بہت زیادہ ہیں ۔نیز ان کو حکومت کے ماتحت ہونا چائیے تاکہ پرائیویٹ اسکول طلباء کے ساتھ امتیازی سلوک روا نہ رکھیں ۔ البتہ دوسری مذاہب کے اسکول اور ان کے نظام کو قطعاً نہ چھیڑا جائے تاوقتیکہ وہ قوانین کی خلاف ورزی کریں ۔ ان کو مکمل خودمختاری ملنی چائیے کہ پاکستان کے نظام کے اندر رہتے ہوئے اپنا نظام تعلیم خود چلائیں اور اس میں کسی قسم کی مداخلت نہ ہو ۔ وجہ یہ ہے کہ ان سے بعض ایک صدی سے زیادہ عرصے سے تعلیمی خدمات سرانجام دے رہے ہیں ۔ بعض یونی ورسٹیوں کی صورت حال کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے ۔ اکثر شعبہ جات میں معیاری تعلیم کا تصور نہیں ہے ۔ کم تعلیم یافتہ اور کم علم لوگ پڑھا رہے ہیں ۔ بعض اساتذہ تو ایسے ہیں کہ انہوں نے آج تک کلاس روم کی شکل نہیں دیکھی ۔ بلیک میلنگ سے اپنی نوکری بچائے ہوئے ہیں ۔ یونیورسٹی انتظایہ میں یہ ہمت نہیں ہے کہ وہ نالائق اساتذہ کو فوری طورپر بر طرف کرے اور ان تمام لوگوں کے خلاف ضابطہ کی کارروائی کرے جو اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہیں۔ یونیورسٹی کے معاملات میں مداخلت کرتے ہیں اور وائس چانسلر تک کو اپنے تابع رکھتے ہیں ۔ ایک آدھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر چاپلوس ہیں ۔ وہ ہر آدمی کو شیلڈ پیش کرتے نظر آتے ہیں ویسے ان کی اہلیت مشکوک ہے کہ وہ اس منصب کے اہل نہیں ۔ سیاسی اور دوسری وجوہات کی بناء پر اپنے عہدے پر گزشتہ کئی سالوں سے براجمان ہیں ۔ ایسے چاپلوس وائس چانسلر کی موجودگی میں یونیورسٹی ترقی نہیں کرسکتا بلکہ طلباء کا وقت اور وسائل ضائع ہوتا ہے ۔