|

وقتِ اشاعت :   June 3 – 2014

حالیہ واقعات سے یہ آسانی سے ثابت ہوگیا ہے کہ الطاف حسین اور ان کی ایم کیو ایم دائمی مشکلات کا شکار ہوگئی ہے۔ منی لانڈرنگ اور ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس سے اس کے بچنے کے امکانات انتہائی کم ہیں برطانوی حکومت کے بقول ایم کیو ایم نے برطانوی حکومت اور پولیس کو ان مسئلوں پر بلیک میل کرنے کی کوششیں کیں اور بڑے بڑے احتجاجی جلوس نکالے اور برطانوی حکومت پر الزامات کی بوچھاڑ کردی کہ الطاف حسین کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جارہا ہے۔ اس کے ردعمل میں برطانوی پولیس نے ان دو قتل کے ملزمان سعید محسن علی اور کاشف کامران کی تصاویر شائع کردیں اوریہ ثابت کیا کہ ڈاکٹر عمران فاروق کا قتل ایم کیو ایم کے رہنماؤں کے ایماء پر ہوا ہے۔ اس سلسلے میں برطانوی پولیس نے الطاف حسین کے گھر اور دفاتر پر چھاپے مارے اور وہاں سے بڑی تعداد میں کرنسی نوٹ برآمد کئے۔ ایم کیو ایم نے اپنے دوست تاجروں سے جعلی حلف نامے حاصل کئے کہ یہ رقم انہوں نے ایم کیو ایم کو چندے کے طور پر دی تھی۔ یہ سب حلف نامے جعلی ثابت ہوئے دوسری جانب برطانوی پولیس نے وہ تمام قانونی تقاضے پورے کردیئے جس کی رو سے حکومت پاکستان ڈاکٹر عمران فاروق کے دو قاتلوں کو برطانوی پولیس کے حوالے کرے گی۔ حکومت پاکستان نے بھی قانونی تقاضے پورے کرلئے ہیں کہ ان ملزمان کی حوالگی ممکن ہو۔ تاہم دونوں حکومتیں اس بات کا اندازہ لگانے کی کوششیں کررہی ہیں کہ الطاف حسین کی گرفتاری کی صورت میں کیا ردعمل سامنے آسکتا ہے۔ اس بات کے محدود توقعات ہیں کہ الطاف حسین کا کوئی نعم البدل سیاسی منظر نامے پر آسکتا ہے۔ سیاسی نعم البدل نہ ہونے کی صورت میں ایم کیو ایم انتشار کا شکار ہوسکتی ہے کیونکہ الطاف حسین نے اپنا نعم البدل بننے نہیں دیا۔ لہٰذا کوئی بھی لیڈر یہ ذمہ داریاں قبول نہیں کرسکتا کہ وہ الطاف حسین کی جنگ برطانیہ اور پاکستان دونوں سے بیک وقت لڑے جس کے جیتنے کے امکانات کم ہیں۔ ایم کیو ایم کا کوئی قائد خاص طور پر دو نمبر کا قائد یہ رسک نہیں لے سکتا۔ ریاست پاکستان کی کوشش ہے کہ ایم کیو ایم کو غیر مسلح کیا جائے، اس کے 300سے زائد لگ بھگ ٹارگٹ کلرز کو آئندہ چند ہفتوں میں گرفتار کیا جائے اور ان سے اقبالی بیانات لئے جائیں اور یہ ثابت کیا جائے کہ ایم کیو ایم ایک سیاسی پارٹی نہیں ہے بلکہ دہشت گرد تنظیم ہے اور دہشت گردی کی وجہ سے اس نے اپنے لوگوں کو پارٹی کے ساتھ جھکڑا ہوا ہے۔ اگر وہ آزاد ہوتے تو کبھی کا پارٹی کو خیر باد کہہ چکے ہوتے۔ گمان یہ ہے کہ ریاست پاکستان اس بار اپنی ریاستی قوت کا بھرپور مظاہرہ کرے گی اور ایم کیو ایم کی مسلح ونگ کا خاتمہ ہر قیمت پر کرے گی۔ وہ تمام لیڈر حضرات، پارلیمان کے اراکین جو گزشتہ ادوار میں جرائم کی دنیا سے تعلق رکھتے تھے اور ٹارگٹ کلرز کو پناہ دیتے تھے اور ان کی پشت پناہی کرتے تھے ان کو گرفتار کیا جائے گا اور ان کو معافی کی صورت میں یہ کہا جائے گا کہ وہ کسی سرکاری پارٹی میں شامل ہوں۔ ایم کیو ایم کو اندازہ ہوا ہوگا کہ ریاست پاکستان کے ہاتھ کتنے لمبے ہیں کہ کاشف کامران اور سید محسن علی کو جہاز سے اترتے ہی سرکاری تحویل میں لیا گیا اور ایم کیو ایم کی یہ سازش ناکام بنادی کہ ان کو کراچی پہنچتے ہی قتل کیا جائے اور آخری شواہد کا خاتمہ کیا جائے جیسا کہ ولی خان بابر کیس میں کیا گیا۔ اس بار ایم کیوایم پر وار زیادہ شدید ہوگا خصوصاً 1990کے مقابلے میں جب الطاف حسین کو محفوظ طریقے سے جام صادق وزیراعلیٰ سندھ، نے فرار کروایا اور خود ان کو لندن کی فلائیٹ پر روانہ کیا کہ اس کو کوئی گرفتار نہ کرے۔