|

وقتِ اشاعت :   June 3 – 2014

کوئٹہ: وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ نے کہا کہ 11مئی2013ء سے11مئی2014ء تک173افراد کو اٹھایا گیا125افراد کی مسخ شدہ لاشیں ملیں 25لاشوں کی تا حال شناخت نہیں ہو سکی انہوں نے چیف جسٹس پاکستان سے اپیل کی ہے کہ مسنگ پرسن کے کیس کو فوری طور پر نمبر لگا کر بینچ ایک میں منتقل کیا جائے تاکہ جلد از جلد انصاف فراہم ہو سکے ان خیالات کا اظہار انہوں نے کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں انسانی حقوق کے کیسز کو دیگر کیسز پر فوقیت دی جاتی ہے اور دو ہفتوں سے زیادہ وقت نہیں دیا جاتا 6مئی کو لاپتہ افراد کے کیس کی سپریم کورٹ میں پیشی ہونی تھی جو ناگزیر وجوہات کی بناء پر نہیں ہو سکی اوراب تک کیس کو نمبر نہیں لگایا گیا دو ماہ مکمل ہونے والے ہیں اور لاپتہ افراد کے کیس کی پیشی نہیں ہوئی جس کے وجہ ان کے لواحقین ذہتی اذیت سے دوچار ہیں انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس آف پاکستان فوری طور پر لاپتہ افراد کا کیس بینچ نمبر ایک میں منتقل کرے تاکہ لواحقین میں پائی جانیوالی بے چینی ختم ہو سکے انہوں نے کہا کہ گزشتہ41دن سے تادمرگ بھوک ہڑتال پر بیٹھے ہوئے لطیف جوہر بلوچ کا مطالبہ ہے کہ زاہد بلوچ پر کوئی الزام ہے تو اسے عدالت میں پیش کیا جائے کیونکہ بھوک ہڑتال کی وجہ سے لطیف جوہر کا وزن آدھے سے کم ہو چکا ہے اور بات چیت کرنے میں بھی اسی دشواری کا سامنا ہے وہ اٹھ بیٹھ نہیں سکتا اس کا علاج کرنے والے ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ اس کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہیں کسی بھی وقت کچھ ہو سکتا ہے انہوں نے کہاکہ اگر اسے کچھ ہوا تو اس کی تمام تر ذمہ داری انصاف کیلئے بنائے جانیوالے ادارے پر عائد ہو گی انہوں نے کہاکہ سپریم کے چیف جسٹس کو زاہد بلوچ اور لطیف جوہر بلوچ کی زندگی بچانے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کے دور میں بھی خفیہ ادارے آئین و قانون انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بلوچ سیاسی کارکنوں کی اغواء نما گرفتاریاں اور مسخ شدہ لاشیں پھینکنے عمل کو جاری رکھے ہوئے ہیں اب توپنجاب سے بھی لاشیں مل رہی ہیں حکومت لاپتہ افراد کو منظر عام پر لانے اور مسخ شدہ لاشوں کی روک تھام کیلئے کوئی اقدام نہیں کر سکی بلکہ خفیہ اداروں کے غیر آئینی اقدام کو تحفظ فراہم کر رہی ہیں اور لاپتہ افراد کے کیسسز میں ملوث فوجیوں کے ملٹری ٹرائل کی حمایت کر رہی ہے جبکہ لاپتہ افراد کے لواحقین چاہتے ہے کہ فوجیوں کا ٹرائل سول عدالت میں ہو انہوں نے صوبائی حکومت سے مطالبہ کیاکہ وہ ملٹری ٹرائل کی حمایت کا فیصلہ واپس لیں اور تحفظ پاکستان آرڈینس کے خلاف بیانات کی بجائے سندھ حکومت کی طرح اسمبلی سے مذمتی قرار داد پاس کرائے تا کہ اغواء نما گرفتار یاں اور مسخ شدہ لاشوں کی روک تھام اور ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کیلئے عملی اقدامات اٹھائے اگر حکومت نے یہ اقدامات نہیں اٹھائے تو ہم یہ سمجھنے میں حق بجانب ہونگے کہ بلوچ نسل کشی میں حکومت برابر شریک ہیں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ صوبہ پنجاب کے علاقے رحیم یار خان سے 3افراد کی لاشیں گزشتہ ماہ ملی تھیں ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ11مئی2013ء سے11مئی2014ء تک173افراد کو اٹھایا گیا اور125افراد کی مسخ شدہ لاشیں ملی 25کی تاحال شناخت نہیں ہوئی توتک سے ملنے والی لاشیں ان سے الگ ہیں جن کی تعداد زیادہ ہیں لیکن حکومت کم بتا رہی ہے ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ23مئی کو فورسز نے عنایت اللہ، عبدالفتح اور بشال کو اغواء کیا جنہیں بعد میں دہشتگردی میں ملوث کر کے تفتیش کیلئے نا معلوم مقام پر منتقل کر دیا 26 ستمبر 2013ء کو محمد قزافی اور8مئی2014ء کو سیف اللہ کو اٹھایا گیا جن کے بارے میں تاحال کوئی اتا پتہ نہیں کہ وہ کس حال میں ہیں ان کے لواحقین اور ہم پریشان ہیں کہ کہیں انکی بھی مسخ شدہ لاشیں نہ ملیں۔