|

وقتِ اشاعت :   June 4 – 2014

ایک امریکی خفیہ ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق گوانتانامو جیل سے رہا ہوئے قیدیوں میں سے 17 فیصد کے بارے میں یہ پورے یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ دوبارہ سے شدت پسند سرگرمیوں میں شامل ہو گئے ہیں۔ ڈائریکٹر نیشنل انٹیلی جنس کی اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ قیدیوں میں سے 12 فیصد پر اس بات کا شک ہے کہ وہ شدت پسند سرگرمیوں میں شامل ہیں۔ امریکہ میں کئی فوجی افسر اور ریپبلکن رہنما امریکی فوجی سارجنٹ برگ ڈیل کے بدلے پانچ طالبان قیدیوں کی رہائی کے فیصلے کی سخت تنقید کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ رہا کیے گئے طالبان لیڈر امریکہ کے لیے پھر سے خطرہ بن سکتے ہیں۔ صدر اوباما نے رہائی کے فیصلے کو صحیح قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ’ آگے حالات جو بھی ہوں، ایک امریکی فوجی جو قید میں تھا اسے واپس گھر لایا گیا ہے۔‘ ان کا کہنا تھا، ’ہم ان لوگوں پر نظر رکھیں گے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ان میں سے کچھ پھر سے امریکہ کے خلاف کارروائی میں شامل ہو جائیں؟ بالکل۔‘ انہوں نے کہا کہ انہوں نے قومی سلامتی سمیت تمام پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد ہی یہ فیصلہ کیا کیونکہ انہیں یقین ہے کہ اگر یہ لوگ امریکہ کے خلاف کام کرتے ہیں تو انہیں پھر سے لیا جا سکتا ہے۔ ڈائریکٹر نیشنل انٹیلی جنس کی رپورٹ کے مطابق جنوری 2014 تک گوانتانامو بے سے کل 614 قیدی رہا کیے جا چکے ہیں اور ان میں سے 104 کے بارے میں یہ تصدیق ہو چکی ہے کہ وہ پھر سے شدت پسند سرگرمیوں میں شامل ہو گئے ہیں۔ اس کے علاوہ 74 ایسے ہیں جن پر شک ہے کہ وہ دہشت گردی سے وابستہ ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، ’گزشتہ 11 برسوں کے تجزیے سے کہا جا سکتا ہے کہ اگر گواتانامو بے جیل سے مزید قیدیوں کو بغیر شرط رہا کیا گیا تو ان میں سے کچھ پھر سے دہشت گرد سرگرمیوں میں شامل ہو جائیں گے۔‘ رپورٹ کا کہنا ہے کہ یہ قیدی اسی ماحول میں لوٹتے ہیں جہاں حالات خراب ہیں اور شدت پسند تنظیمیں انہیں واپس بلانے کی کوشش کرتی ہیں تو یہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ امریکہ اب تک اس اصول پر قائم رہا ہے کہ جنھیں وہ ’دہشت گرد‘ قرار دیتا ہے ان کے ساتھ کسی طرح کی بات چیت نہیں کی جائے گی۔ کہا جاتا ہے کہ کہ سارجنٹ برگ ڈیل حقانی نیٹ ورک کے قبضے میں تھے اور امریکہ اس تنظیم کو ’دہشت گرد‘ تنظیم قرار دے چکا ہے۔guantanamo_prison کئی سابق فوجی افسران اور ریپبلکن ممبران پارلیمنٹ نے اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے ’دہشت گرد‘ تنظیموں کا حوصلہ بلند ہوگا اور ان کی سوچ ہوگی کہ امریکی فوجیوں کو یرغمال بنا کر وہ اپنے ساتھیوں کو رہا کروا سکتے ہیں۔ اوباما انتظامیہ کے فیصلے پر اس لیے بھی تنقید ہو رہی ہے کیونکہ جس امریکی فوجی کو رہا کروایا گیا ہے وہ فوج سے ناخوش تھا اور 2009 میں اپنی مرضی سے فوجی اڈے سے باہر نکل گیا تھا۔ اس کے کچھ ہی گھنٹوں بعد طالبان نے اسے یرغمال بنا لیا تھا۔ کئی امریکی فوجی اسے مفرور کہہ رہے ہیں اور فوج کے قانون کے تحت کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ امریکی فوج کے سپریم افسر جنرل مارٹن ڈیپسی کا کہنا ہے کہ ایک امریکی فوجی کو رہا کروانے کا یہ ایک طرح سے آخری اور سب سے بہتر موقع تھا۔ انہوں نے کہا کہ سارجنٹ برگڈیل سے بات چیت کے بعد ہی پتہ چلے گا کہ وہ کن حالات میں پکڑے گئے۔ ان کا کہنا تھا، ’اگر انہوں نے کچھ غلط کیا تھا تو فوج اس کی نظر انداز نہیں کرے گی لیکن کسی دوسرے امریکی کی طرح ہی وہ اس وقت تک بے گناہ ہیں جب تک یہ جرم ثابت نہیں ہو جائے۔‘