کوئٹہ ( اسٹاف رپورٹر)زمیندار ایکشن کمیٹی کے زیر اہتمام بجلی کی بندش ، وزیر مملکت برائے پانی وبجلی عابد شیر علی اور واپڈا حکام کے رویے کے خلاف کوئٹہ سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں میں قومی شاہراہوں پر دھرنے دیئے گئے جس کے باعث کوئٹہ کراچی، کوئٹہ تفتان، کوئٹہ چمن ، کوئٹہ ژوب سمیت دیگر شاہراہیں بند اور اندرون بلوچستان اور ملک کے دیگر علاقوں کیلئے ٹریفک معطل ہو کر رہ گئی ۔سڑکوں پرگاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں مسافروں اور عا م شہریوں خصوصاً خواتین اوربچوں کو شدید گرمی میں سخت مشکلات کا سامنا کر نا پڑا ۔جمعرات کو زمیندار ایکشن کمیٹی کی اپیل پر مختلف اضلاع میں فیڈروں کی بندش اور زرعی ٹیوب ویلوں کے کنکشن منقطع کرنے کے خلاف کوئٹہ سمیت بلوچستان کے مختلف شاہراہوں کوئٹہ کراچی ، کوئٹہ چمن ، کوئٹہ جیکب آباد ، کوئٹہ ژوب ، کوئٹہ زیارت ، کوئٹہ لورالائی ، کوئٹہ سبی کوئٹہ تفتان سمیت مختلف مقا مات دھرنے دیئے گئے ۔کچلاک، اور لکپاس کے مقام پر بلوچستان زمیندار ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں حاجی عبدالرحمن بازئی ، ملک رمضان مہترزئی ، سید قہار آغا ، کاظم خان اچکزئی ،حاجی عبداللہ موسیٰ زئی اور دیگر، لکپاس کے مقا م پر دھرنے سے حاجی افضل ، یوسف بنگلزئی ،حاجی ولی محمد رئیسانی ،حاجی عزیز سرپرہ ، حاجی عزیز شاہوانی ، میر بشیر لانگواور خانوزئی کے مقام پر دھرنے سے عبداللہ پانیزئی ، ملک حسین اور حاجی عثمان نے خطا ب کر تے ہو ئے کہا کہ وزیر مملکت بجلی و پانی عابد شیر علی نے بلوچستان کے عوام اور زمینداروں کو دھمکی دی کہ اگر وہ بلوں کی ادائیگی نہیں کریں گے۔ تو وہ صوبے بھر میں بجلی کی فراہمی معطل کریں گے ۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے عوام اور زمیندار شروع ہی دن سے باقاعدگی سے بلوں کی ادائیگی کرتے چلے آئے ہیں مگر موصوف نے زرعی صارفین کے ذمہ 84 ارب روپے کے بقایاجات کا دعویٰ کیا ہے ہم واضح کردینا چاہتے ہیں کہ مذکورہ رقوم میں سے 56 ارب روپے 2010 سے 2012 کے دوران سبسڈی واپس لئے جانے جبکہ باقی اربوں روپے کے واجبات دسمبر 2012کے بعد سبسڈی کو 50 ہزار تک محدود کردینے کے دوران کے ہیں مذکورہ رقم کو سابقہ وفاقی اور صوبائی حکام متنازعہ قرار دے چکے ہیں اس سلسلے میں ہمارے پاس بطور ثبوت ایک نوٹیفکیشن بھی موجود ہے مذکورہ رقم زرعی صارفین کے ذمہ نہیں بلکہ صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے ذمے ہیں کیونکہ زمینداروں کو سبسڈی کی رقوم کی 70 فیصد انہی کے ہی ذمے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ وفاقی وزیر مملکت نے سابق صدر پرویز مشرف کی طرح بلوچستان کی عوام کو دھمکی دے کر للکارا کہ ہم بزور طاقت بقایاجات وصول کریں گے ہم نے نہ پہلے کسی کی بدمعاشی تسلیم کی ہے اور نہ ہی آئندہ ایسا ہوگا ۔ انہوں نے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے مطالبہ کیا کہ وفاقی وزیر مملکت برائے پانی وبجلی کو فوری طور پر ہٹایا جائے اور وفاقی وزیر مملکت صوبے کی عوام سے معافی مانگے ۔ زمیندار ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں نے بلوچستان کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں سے اپیل کی کہ وہ ان کا ساتھ اسی احتجاج میں شریک ہو ۔ قلات میں بھی زمیندار ایکشن کمیٹی کے زیر اہتمام قلات شہر اور قومی شاہراہوں پر پہیہ جام ہڑتال کی گئی۔ سابق صوبائی وزیر آغا عرفان ، وڈیرہ رحیم مینگل ، احمد نواز بلوچ ،ملک عبدالناصر دہوار، ملک محمد نور فاروقی سمیت سیاسی و سماجی رہنماؤں نے بھی احتجاج میں شریک ہوکر زمینداروں سے اظہار یکجہتی کیا۔ اس موقع پر زمیندار ، سیاسی اور سماجی رہنماؤں نے کہا کہ بلوچستان کے عوام اور زمینداروں کے ساتھ ظلم و زیادتی کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی، بلوچستان میں زراعت کو تباہ کرنے کے لئے بندش قابل قبول نہیں۔ خضدار میں زمیندارایکشن کمیٹی نے باغبانہ ،توتک اور باجوڑی کے فیڈروں کی بندش کے خلاف سمبھان کے مقام پر رکاوٹیں کھڑی کرکے قومی شاہراہ کو بند کردیا۔ مظاہرین نے صوبائی و وفاقی حکومت سمیت کیسکو کے خلاف شدید نعرہ بازی کی ۔زمیندار ایکشن کمیٹی کے عہدے داران عید محمد ایڈووکیٹ، حاجی محمد صدیق محمد حسنی، میر شیر محمد ، عبدالخالق باجوئی اور محمد حسن باجوئی نے مظاہروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کیسکو حکام بلوں کی ادائیگی کے باوجود فیڈروں کو بند کرکے زمینداروں کو نان شبینہ کا محتاج بنادیا گیا ہے، زمیندار قرضوں تلے دب گئے ہیں ۔اس موقع پر شہریوں نے بھی زمینداروں کے ساتھ دیا اور شہریوں نے کہا کہ دن کو پانی کی تلاش میں رہتے ہیں اور راتیں جاگ کر گزارتے ہیں جبکہ شدید گرمی کے باعث موسمی امراض بھی پھوٹ پڑے ہیں۔اس کے علاوہ ژوب ، نوشکی ، قلعہ عبداللہ ، آواران ، خضدا ر، قلعہ سیف اللہ ، پشین ، زیارت ، مستونگ ، خانوزئی ، کان مہترزئی ودیگر علاقوں میں بھی زمیندار ایکشن کمیٹی کی اپیل پر احتجاجی مظاہرے کئے گئے جس کے شرکاء کا کہنا تھا کہ کیسکو حکام اپنی نااہلی اور غفلت چھپانے کے لئے وفاقی وزیر مملکت پانی وبجلی کو گمراہ کرچکے ہیں جبکہ انہوں نے بھی جس ہتک آمیز انداز کو اپنایا وہ قابل مذمت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بجلی بحران کے ذمہ دار صرف زمیندار نہیں بلکہ کیسکو کے اپنے اعداد وشمار اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ خود حکومتی ادارے بھی اس سلسلے میں اربوں روپے مقروض ہیں ہمیں بتایا جائے کہ اب تک کن سرکاری محکموں کی بجلی منقطع کی گئی ہے دوسری جانب زمینداروں کے ساتھ متعصباہ رویہ رکھتے ہوئے عین زرعی سیزن میں فیڈروں کی نہ صرف بجلی منقطع کی گئی ہے بلکہ سینکڑوں ٹیوب ویلوں کے کنکشن کاٹ کر ان کے ٹرانسفارمر لے جاچکے ہیں جس کے باعث زراعت سے وابستہ 70 فیصد آبادی کا معاشی مستقبل داؤ پر لگ چکا ہے ملک وقوم کو چیلنجز سے نکال کر مضبوط معیشت کے دعوے داروں نے بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے کی عوام کو مزید معاشی بدحالی سے دوچار کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے جسے ہم کسی صورت تسلیم نہیں کریں گے زراعت کی تباہی سے ہزاروں لوگ نہ صرف بے روزگار ہوں گے بلکہ تجارت سمیت دیگر شعبے بھی تباہ وبرباد ہوجائیں گے جس کی ملکی خزانے پر انتہائی برے اثرات مرتب ہوں گے ۔