اسلام آباد: یوں تو حکومت کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ وہ تعلیمی شعبے کو اہمیت دیتی ہے اور یہ بھی کہ تعلیمی بجٹ میں اضافہ کردیا گیا ہے، لیکن یہ محض اعدادوشمار کا ایک کھیل تھا۔
حقیقی معنوں میں وفاقی تعلیمی بجٹ جس کا تین جون کو اعلان کیا گیا تھا، اس میں ایک ارب روپے سے زائد کی کمی کی گئی تھی اور اگر اس میں افراط زر کا بھی حساب کتاب شامل کیا جائے تو حیرت انگیز بات یہ ہے کہ تعلیمی بجٹ میں گیارہ فیصد تک کی کمی کی گئی ہے۔
ڈان کے علم میں یہ بات آئی ہے کہ تعلیم کے لیے مختص کیے جانے والے مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کا چار فیصد محض ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ مالی سال 2013-2014ء کے بجٹ میں تعلیم کے لیے 80 ارب روپے کے تخمینے کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس دوران اس تخمینے پر نظرثانی کی گئی اور 87.8 ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیا۔
تاہم منگل کے روز 86.4 ارب روپے کے وفاقی تعلیمی بجٹ کا اعلان کیا گیا، جوگزشتہ سال کے نظرثانی شدہ بجٹ سے 1.6 فیصد کم ہے۔
اقتصادی سروے 2013-2014ء کے مطابق افراطِ زرکی شرح 8.7 فیصد تھی، لہٰذا اگر افراطِ زرکی شرح سے تعلیمی بجٹ میں سے کٹوتی کرلی جائے تو گیارہ فیصد کی مجموعی کمی سامنے آئے گی اور یہ بجٹ حقیقی معنوں میں 78.9 ارب روپے کے برابر رہ جائے گا۔
معروف تعلیمی ریسرچر احمد علی بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ تعلیمی بجٹ کے اندر حقیقی معنوں میں گیارہ فیصد تک کی کمی کی گئی ہے۔
ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے احمد علی نے کہا کہ اگر وفاقی تعلیمی بجٹ کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات دلچسپی کا باعث ہوگی کہ اس بجٹ کا 73 فیصد اعلٰی تعلیمی کمیشن (ایچ ای سی) کے لیے مختص کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا ’’کیپیٹل ایڈمنسٹریشن اینڈ ڈویلپمنٹ ڈویژن کے لیے اس تعلیمی بجٹ کا 9.3 فیصد حصہ مختص کیا گیا ہے، 5.1 فیصد بجٹ وزارتِ تعلیم و تربیت کے لیے، جبکہ 4.62 فیصد بجٹ کنٹونمنٹ کے علاقوں میں کام کرنے والے تعلیمی اداروں کے لیے مختص کیا گیا ہے۔‘‘
کیپیٹل ایڈمنسٹریشن اینڈ ڈویلپمنٹ ڈویژن :
مالی سال 2013-2014ء کے دوران کیپیٹل ایڈمنسٹریشن اینڈ ڈویلپمنٹ ڈویژن کے لیے 7.25 ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔ جبکہ سال 2014-2015ء کے لیے اس کا تخمینہ 8.1 ارب روپے لگایا گیا ہے، یعنی کہ کاغذات پر اس ضمن میں 11.7 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔
احمد علی کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال ترقیاتی بجٹ کے لیے دو کروڑ بیس لاکھ روپے مختص کیے گئے تھے، لیکن اس سال کیپیٹل ایڈمنسٹریشن ڈویلپمنٹ ڈویژن کے ترقیاتی بجٹ کے لیے 74 کروڑ نوّے لاکھ کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایک بے مثال اضافہ ہے، اور مجھے اس بارے میں شک ہے کہ کیپیٹل ایڈمنسٹریشن ڈویلپمنٹ ڈویژن اس کثیر رقم کو استعمال کرنے کے قابل ہوگا، اس لیے کہ یہ ترقیاتی فنڈ میں 3248 فیصد تک کا اضافہ ہے۔
احمد علی نے مزید کہا کہ اس سلسلے میں سب سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہوگی کہ مختص فنڈ کا بروقت جاری کیا جائے اور اس کے موثر استعمال کو یقینی بنایا جائے۔
اس کے علاوہ موجودہ بجٹ میں صرف 2.2 فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ بجٹ دو حصوں میں تقسیم ہے، ایک تو تنخواہوں کے لیے اور دوسرا حصہ دیگر ضروریات کے لیے۔
بجٹ کے دوسرے حصے کو عمارتوں کی مرمت کے کاموں، تعلیمی معیار کی نگرانی، یوٹیلیٹی بلز اور بسوں کے ایندھن کے لیے ادائیگی کے ساتھ ساتھ دیگر اخراجات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، لہٰذا اس میں اضافہ کیا جانا چاہیٔے تھا۔
اعلٰی تعلیمی کمیشن:
گزشتہ سال اعلٰی تعلیمی کمیشن کے لیے 57.59 ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔ تاہم آئندہ مالی سال میں اس کا 63 ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
احمد علی نے کہا ’’43 ارب روپے کی رقم موجودہ اخراجات کے لیے مقرر کی گئی ہے، اور 20.06 ارب روپے ترقیاتی اخراجات کے لیے رکھے گئے ہیں۔ اعلٰی تعلیمی کمیشن کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو سامنے رکھیں تو ترقیاتی اخراجات کے لیے مختص کی جانے والی رقم ناکافی معلوم ہوتی ہے۔‘‘
چھوٹے صوبے اور جنوبی پنجاب کو نظرانداز کردیا گیا:
وزارتِ تعلیم و تربیت کے ایک اہلکار نے کہا کہ اعلٰی تعلیم کے شعبے کے لیے 2014-2015ء کے وفاقی بجٹ میں چھوٹے صوبوں کو نظرانداز کردیا گیا ہے۔
احمد علی نے بتایا ’’اس بجٹ میں 3.27 ارب روپے کی مالیت کے زیادہ سے زیادہ 54 نئے منصوبے تجویز کیے گئے تھے۔ تاہم سینٹرل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی (سی ڈی ڈبلیو پی) نے ان میں سے صرف چار کی منظوری دی۔‘‘
انہوں نے کہا کہ بجٹ میں پنجاب کے لیے بارہ منصوبے ہیں، لیکن ان میں سے صرف ایک جنوبی پنجاب کے لیے ہے۔
بجٹ کے مطابق 154 ترقیاتی منصوبوں کے لیے جاری ہونے والے فنڈز کا تیس فیصد مالی سال 2013-2014ء میں استعمال نہیں کیا جاسکا۔ 14.787 ارب روپے جاری کیے گئے تھے، اور 10.351 ارب روپے حقیقی معنوں میں استعمال ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ ’’نیشنل فرٹیلائزر کارپوریشن انسٹیٹیوٹ آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی (این ایف سی آئی ای ٹی) ملتان، 1985ء میں قائم ہوا تھا اور نیشنل ٹیکسٹائل یونیورسٹی فیصل آباد 2002ء میں قائم ہوئی تھی، دلچسپ بات یہ ہے کہ ان اداروں کو نئی قائم ہونے والی یونیورسٹیوں کے ساتھ شامل کیا گیا ہے۔‘‘