|

وقتِ اشاعت :   June 8 – 2014

جمعہ کے دن اچانک نواب خیربخش مری کو لیاقت نیشنل اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں منتقل کیا گیا۔ ان کی حالت تشویشناک تھی۔ مگر ان کے خاندانی ذرائع اور اسپتال کے حکام نے ان کی بیماری کی نوعیت نہیں بتائی کہ ان کو کیا عارضہ لاحق ہے۔ تاہم ان کی عمر 86سال ہے اور وہ پیرانہ سالی کے دوران ایک سڑک حادثے میں زخمی ہوئے تھے اور ان کی ریڑھ کی ہڈی کو شدید نقصان پہنچا تھا۔ سالہا سال سے وہ زیر علاج رہے ہیں۔ وہ کوئٹہ سے جاتے ہوئے آر سی ڈی ہائی پر حادثہ کا شکار ہوگئے تھے اور ان کی گاڑی الٹ گئی تھی۔ گزشتہ کئی ماہ سے نواب مری نے لوگوں سے ملنا جلنا کم کردیا تھا اور لوگوں کو یہ بتایا گیا تھا کہ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ اچانک جمعہ کے دن ان کو اسپتال میں داخل کرنا پڑا۔ رات گئے تک یہ تیاریاں جاری تھیں کہ ان کو علاج کے لیے لندن منتقل کیا جائے گا۔ نواب مری ایک بلند پایہ سیاسی رہنما ہیں۔ وہ 60سال سے زائد عرصے سے پاکستانی سیاست بلکہ بلوچ سیاست میں رہے ہیں۔ پاکستانی سیاستدانوں کی طرح ان کے خلاف کوئی کریمنل الزامات نہیں ہیں۔ وہ ہمیشہ جیل میں سیاسی اور آئینی وجوہات کی بناء پر گئے۔ آج تک انہوں نے 1962, 1956اور 1973کے آئین کو تسلیم نہیں کیا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ نواب مری، سردار مینگل اور بزنجو کے ہمراہ 14اگست 1973میں گرفتار ہوئے اور اسی دن بھٹو صاحب نے 1973کے آئین کے نفاذ کا اعلان کیا تھا۔ یہ بلوچوں کے خلاف شدید نفرت کی نشاندہی کرتی ہے کیونکہ بلوچ اکثریت نے 1973کے آئین کے حق میں ووٹ نہیں دیا بلکہ انہوں نے 1973کے آئین کو ویٹو کیا تھا جس پر بھٹو صاحب گھبراگئے تھے اور قومی اسمبلی میں حفیظ پیرزادہ کے ذریعہ یہ اعلان کردیا کہ مشترکہ آئینی لسٹ اگلے دس سالوں میں ختم کردیا جائے گا اور تمام اختیارات صوبوں کو دیئے جائیں گے ۔یہ اعلان اس وجہ سے کیا گیا تھا کہ 1973کے آئین کو مسترد کرنے کے اثرات کو کم سے کم کیا جاسکے۔ ون یونٹ کے خلاف تحریک میں نواب مری صف اول کے رہنما تھے اور ہر محاذ پرڈٹے رہے۔ انہوں نے اصولوں پر کبھی بھی سودا بازی نہیں کی۔ 1970کے انتخابات میں شیخ مجیب الرحمان کے بعد مغربی پاکستان سے نواب مری نے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کئے۔ ان کے ووٹوں کی تعداد ایک لاکھ 40ہزار تھی۔ وہ انتہائی مقبول رہنما تھے انہوں نے اپنے مدمقابل کو عبرت ناک شکست دی۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے کوئٹہ سے بھی صوبائی اسمبلی کی نشست جیتی۔ 1962 اور 1965کے انتخابات میں وہ دوبارہ قومی اسمبلی کی نشست پر منتخب ہوئے۔ نواب مری نیشنل عوامی پارٹی کے صوبائی صدر بھی رہے اسی دوران بھٹو نے سازش کرکے سردار عطاء اللہ مینگل کی حکومت کا تختہ الٹ دیا جس کے بعد بہت بڑے پیمانے پر بلوچستان میں انسرجنسی ہوئی جو 8سالوں پر محیط رہی۔ حیدرآباد جیل سے رہائی کے بعد وہ لندن اور پیرس چلے گئے اور چند ماہ کے قیام کے بعد واپس وطن آئے اور بعد میں افغانستان چلے گئے۔ افغانستان سے اس وقت آئے جب مجاہدین کی حکومت کابل میں قائم ہوئی اور سیکورٹی کے خدشات کے پیش نظر وہ دوستوں کی رائے کے بعد وطن واپس آئے۔ کچھ عرصہ کوئٹہ میں رہنے کے بعد وہ کراچی منتقل ہوئے اور اب وہاں کافی عرصے سے قیام پذیر ہیں۔ نواب مری کی علالت کی خبر نے پوری بلوچ قوم کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے اور پوری بلوچ قوم ان کی صحت یابی کے لیے دعا گو ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں جلد سے جلد صحت عطا فرمائے کیونکہ وہ بلوچ قوم کے لیے جہد مسلسل ،ہمت اورحوصلے کی علامت ہیں۔ تم جیو ہزاروں سال، سال کے دن ہوں پچاس ہزار