پاکستان میں سائبر سپیس سے متعلق ایک سروے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں لوگوں کے مذہب، نسل اور جنس کی بنیاد پر نفرت انگیز مواد کا نشانہ بنانے کا رجحان خطرناک حد تک زیادہ ہوگیا ہے۔
بائٹس فار آل کی جانب سے کراچی میں منعقدہ ایک سیمنار کے دوران پیش کیے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی سائبرسپیس انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد اب خطرناک حد کو چھو رہا ہے جس سے معاشرے میں کئی قسم کے خطرات پیدا ہو رہے ہیں۔
یہ تحقیقاتی سروے رپورٹ جہانزیب حق نے مرتب کی ہے جو ڈان ڈاٹ کام کے ایڈیٹر ہیں۔
اس سروے کے دوران بانوے فیصد افراد نے بتایا کہ انھوں نے انٹرنیٹ پر نفرت انگیز مواد دیکھا ہے جبکہ اکیاون فیصد کے مطابق انھیں نفرت انگیز رویے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
ان میں سے بیالیس فیصد کے مطابق انھیں ان کے مذہب کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا ہے جبکہ 23 فیصد کو ان کی قومیت، 22 فیصد کو ان کی نسل کی بنیاد پر جبکہ سولہ فیصد کو ان کی جنس کی بنیاد پر نفرت انگیز رویے کا نشانہ بنایا گیا۔
سروے کے مطابق کم آمدنی والے افراد میں نفرت انگیز مواد کے بارے میں بہت کم آگاہی تھی جبکہ آمدنی کے اعتبار سے اس آگاہی میں اضافہ ہوتا نظر آیا۔
سروے کا کہنا ہے کہ سماجی ویب سائٹس میں سے فیس بک پر سب سے زیادہ نفرت انگیز مواد موجود ہے اور اکیانوے فیصد افراد نے اس پر ایسے مواد کو دیکھنے کی تصدیق کی تاہم ٹوئٹر پر اس کے مقابلے میں ایسا بہت ہی کم نظر آیا۔
زبان کی بنیاد پر دیکھیں تو فیس بُک پر موجود نفرت انگیز مواد میں سے چوہتر فیصد رومن اردو میں لکھا گیا ہے، بائیس فیصد انگریزی جبکہ صرف چار فیصد اردو میں لکھا گیا ہے۔
اس کے برعکس ٹوئٹر پر 67 فیصد نفرت انگیز مواد انگریزی میں لکھا گیا ہے، 28 فیصد رومن اردو میں لکھا پایا گیا۔
سماجی ویب سائٹس کے ایسے صفحات کاجائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے زیادہ نشانہ سیاست دانوں کو بنایا جاتا ہے۔ 38 فیصد سیاستدانوں اور دس فیصد میڈیا میں کام کرنے والوں یا میڈیا ہاؤسز کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔
اس موقع پر جہانزیب حق نے کہا کہ پاکستان میں آن لائن نفرت انگیز باتیں لکھنے اور پھیلنے سے روکنے کے لیے اقدامات کی اشد ضرورت ہے جسے تعلیم اور آگاہی کے ذریعے ہی کیا جاسکتا ہے تاکہ نفرت اور عدم برداشت کی حوصلہ شکنی کی جاسکے اور نفرت انگیز مواد کی شدید اشکال کو قانونی طریقوں سے روکا جاسکے۔
انھوں نے کہا کہ تاہم اس سارے عمل کے دوران اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ بنیادی انسانی حقوق جیسے حقِ رائے کی آزادی اور معلومات تک رسائی کی آزادی بھی برقرار رہے۔