|

وقتِ اشاعت :   June 9 – 2014

جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے سب سے بڑے جرائم میں بیرونی جنگجوؤں کو پاکستان کے اندر پناہ دینا اور ان کو افغانستان خانہ جنگی میں استعمال کرنا تھا۔ ان دونوں جنریلوں نے جاہل قبائلیوں اور بیرونی جنگجوؤں کو اسلحہ اور روپیہ فراہم کیا کہ وہ افغانوں اور دوسروں کے خلاف لڑیں۔ اسی دوران یہ ہوا کہ انہوں نے اپنے بندوقوں کا رخ پاکستان کی طرف پھیرلیا اور ملک کے اندر خانہ جنگی کی صورت حال پیدا کرنے کی کوشش کی جس میں 50ہزار پاکستانی شہری اور سیکورٹی اہلکار ہلاک ہوئے ۔بنوں کی چھاؤنی پر خوفناک خودکش حملے کے بعد پاک فضائیہ نے شمالی وزیرستان میں زبردست کارروائی کی اور اپنی بھرپور طاقت کا مظاہرہ کیا جس کے بعد بیرونی جنگجو اس بات کو تسلیم کرنے لگے کہ ریاست پاکستان کو شکست دینا مشکل ہے اور خاص طور پر پیدل طالب کے ہاتھوں۔ اس لئے انہوں نے پہلے ہی فیصلہ کرلیا تھا کہ اب وہ پاکستان میں نہیں رہیں گے اور شام جائیں گے جہاں پر وہ جہاد میں حصہ لیں گے۔ پاکستان حکومت سے انہوں نے محفوظ راستہ طلب کیا تھا جو تاوقتیکہ ان کو نہ مل سکا یا حکومت پاکستان کوئی فیصلہ نہیں کرسکی۔ اب اتمان خیل قبائلی جرگہ نے یہ اشارہ دیا ہے کہ تمام غیر ملکی جنگجو وزیرستان 15دن میں چھوڑدیں گے اور حکومت پاکستان ان کے خلاف کارروائی نہ کرے اور نہ ہی طالبان حکومت کے خلاف کوئی کارروائی کرے تاکہ غیر ملکی جنگجوؤں کو محفوظ راستہ فراہم ہو۔ اس بات کی تصدیق نہیں ہوسکی، نہ حکومت پاکستان نے یہ تسلیم کیا ہے کہ ان کو محفوظ راستہ فراہم کریں گے۔ بہر حال اس فیصلے کے اثرات امریکی پالیسی اور افغانستان پر بھی پڑسکتے ہیں ۔ان دو ممالک کا ردعمل کیا ہوتا ہے معلوم نہیں۔ البتہ ان کے پاکستان چھوڑنے سے امریکی اور افغان افواج پر دباؤ کم پڑے گا اور سب مل کر حقیقی نیٹ ورک کو نشانہ بنائیں گے تاہم غیر ملکی جنگجوؤں کو محفوظ راستہ دینا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ جرگہ کس حد تک ان معاملات میں موثر کردار ادا کرسکتا ہے یہ ابھی قبل از وقت ہے حکومت نے خود طالبان کو جرگہ کے خلاف مضبوط بنایا۔ ملک اور خان کی جگہ طالب کو اہمیت دی کیونکہ وہ جہادی ہے اور روس اور افغان فوج سے لڑرہا ہے۔ اس لئے کمزور قبائلی جرگہ کس حد تک موثر کردار ادا کرسکے گا۔ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان، افغانستان اور امریکہ اس بات پر متفق ہیں کہ سرحدوں کے دونوں جانب شدت پسندی کا جلد سے جلد خاتمہ ہو تاکہ امریکی اور دوسرے بین الاقوامی افواج افغانستان سے پرامن انداز سے نکل جائیں اور خطے میں امن اور سلامتی کی ذمہ داریاں خطے کے ممالک سنبھال لیں۔ اس کھیل میں ایران ایک اہم کھلاڑی ہے اس کا کیا کردار ہوگا؟ وہ اپنے مفادات کا تحفظ کرے گا۔ اس کے متعلق نہیں معلوم کہ بین الاقوامی افواج کے انخلاء کے بعد ایران کا ردعمل کیا ہوگا۔ وہ افغانستان میں جاری امن کے عمل کی حمایت کرتا رہے گا یا اپنے گروہوں کو اسلحہ دے کر اپنے مفادات کا تحفظ چاہے گا۔