|

وقتِ اشاعت :   June 11 – 2014

نواب خیر بخش مری کے صاحبزادے جنگیز مری کے مطابق خیر بخش مری کی تدفین کوئٹہ میں یا ان کے آبائی ضلع کوہلو کے علاقے کاہان میں کرنے کا فیصلہ جسد خاکی کے کوئٹہ پہنچنے کے بعد کیا جائے گا۔ بزرگ قوم پرست رہنما نواب خیر بخش مری طویل علالت کے بعد منگل اور بدھ کی درمیانی شب 88 سال کی عمر میں کراچی کے ایک نجی ہپستال میں انتقال کر گئے تھے۔ ادھر نواب خیر بخش مری کے بیٹے حیربیار مری نے تدفین سے قبل موت کے اسباب کا تعین عالمی ماہرین سے کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ نواب مری کے بڑے صاحبزادے جنگیز مری نے بی بی سی کو فون پر بتایا کہ جسدخاکی بدھ یا جمعرات کو کسی وقت کوئٹہ پہنچے گا۔ بیرون ملک رہنے والے نواب مری کے دو بیٹے نوابزادہ حیربیار مری اور نوابزادہ عمران مری عرف مہران بلوچ یہ چاہتے ہیں کہ ان کی تدفین کوئٹہ میں ہزار گنجی کے علاقے نیو کاہان میں شہدا کے قبرستان میں ہو۔ دریں اثنا بلوچ نیشنل وائس کے ترجمان مقبول بلوچ نے فون پر بی بی سی کو بتایا کہ نواب خیربخش مری نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ ان کی تدفین ان کے فکری ساتھیوں کے درمیان ہو۔ انھوں نے بتایا کہ نہ صرف بلوچ قوم بلکہ کوئٹہ میں نیو کاہان کے مکینوں کا بھی مطالبہ ہے کہ نواب خیر بخش مری کی تدفین نیو کاہان کے قبرستان میں کی جائے۔ بلوچ نیشنل وائس کے ترجمان کا کہنا تھا کہ نواب مری کی موت یاسرعرفات کی طرح طبعی نہیں اس لیے ان کی موت کی وجوہات کی تحقیقات اقوام متحدہ یا کسی اور بین الاقوامی فورم کے ذریعے کی جائیں۔ بی این وی کے ترجمان کا کہنا تھا کہ نواب خیر بخش مری کی ضمانت طبی بنیادوں پر ہوئی تھی لیکن ریاستی حکمرانوں نے انھیں علاج معالجے کی سہولت کبھی فراہم نہیں کی۔ دوسری جانب بلوچ ری پبلکن پارٹی کے ترجمان شیر محمد بگٹی نے نواب مری کی وفات کو بلوچ قوم کے لیے ناقابل تلافی نقصان قرار دیتے ہوئے ان کی موت پر 40 روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔۔ بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے نواب مری کے انتقال کو بلوچ قوم کے لیے سانحہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انھوں نے سوگواروں میں صرف فرزند نہیں بلکہ ایک قوم چھوڑی ہے۔ اس سے پہلے لندن سے جاری کی جانے والی ایک پریس ریلیز میں خیر بخش مری کے بیٹے نے کہا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ انھیں دفن کرنے سے پہلے بین الاقوامی ماہرین سے ان کی موت کے اسباب جان سکیں اس لیے بھی کوئٹہ تدفین کے لیے موزوں ہے۔‘ حیربیار مری نے کہا کہ ’چونکہ نواب مری کی فکر قومی آزادی تھی اور نیوکاہان کوئٹہ شہدا قبرستان میں جو شہدا دفن ہیں انھوں نے بھی اس قومی فکر اور آزادی کے لیے اپنی جانیں قربان کی ہیں، لہٰذ ا نواب مری کو بھی کاہان کوہستان مری لے جانے کے بجائے نیوکاہان کوئٹہ میں اپنے فکری ساتھیوں کے قبرستان میں سپرد خاک کیا جائے۔‘ انھوں نے الزام لگایا کہ ’پاکستانی فوج نواب مری کے جسد کو کوہستان مری کے کاہان میں لے جانے کی تیاری کر رہی ہے تاکہ وہ نواب مری کی تدفین کی آڑ میں وہاں پر ڈیرہ ڈال کر بلوچوں کے خلاف آپریشن کو مزید تیز کریں۔۔۔ اور ہم نہیں چاہتے کہ ان حالات میں پاکستانی آرمی نواب مری کو کاہان کوہستان مری میں لے جا کر دفن کرے۔‘ نواب خیر بخش مری کی بیماری کے بارے میں بتاتے ہوئے حیربیار مری نے پریس ریلیز میں کہا کہ نواب مری گذشتہ جمعے سے ایک نجی ہسپتال کے آئی سی یو وارڈ میں تھے لیکن انھیں کل آئی سی یو سے نکال کر نارمل وارڈ میں منتقل کیا گیا اور ہمیں یہی کہا گیا کہ اب ان کی طبیعت بہتر ہے، لیکن آج ان کی اچانک وفات کی خبر ہمیں دی گئی۔ اس سے پہلے نواب خیر بخش مری کے دوسرے فرزند مہران مری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کے انتقال کی تصدیق کی تھی اور دعویٰ کیا تھا کہ خاندان نے انھیں علاج کی خاطر بیرون ملک لے جانے کی کوشش کی لیکن حکومت کی جانب سے اجازت نہیں مل سکی۔ انھوں نے الزام عائد کیا تھا کہ نواب اکبر بگٹی کو بموں سے ہلاک کیا گیا جبکہ نواب مری کو وقت اور دواؤں کے ذریعے ہلاک کیا گیا، بعد میں موت کو طبعی اور عمر کا تقاضا قرار دیا جائے گا۔ واضح رہے کہ نواب خیر بخش مری نے عملی سیاسی سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی اور وہ میڈیا سے بھی بہت کم بات کرتے تھے۔ آخری بار انھیں میڈیا میں اس وقت دیکھا گیا تھا جب سابق وزیراعظم بےنظیر بھٹو ان سے ان کے بیٹے بالاچ مری کی ہلاکت پر تعزیت کرنے گئی تھیں۔ نواب خیر بخش مری کے تین بیٹے گزین مری، حربیار مری اور مہران مری بیرون ملک رہتے ہیں جبکہ ایک بیٹا چنگیز مری مسلم لیگ ن بلوچستان کا سرگرم رہنما ہے جن کے بارے میں نواب خیر بخش مری کہہ چکے ہیں کہ وہ صرف ان کی املاک کے وارث ہیں، سیاسی وارث نہیں۔ مارکس وادی نظریے کے پیروکار نواب مری نیشنل عوامی پارٹی بلوچستان کے صوبائی صدر تھے۔