آخر کار حکومت نے یہ حتمی فیصلہ کر ہی لیا کہ دہشت گردی کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کی جائے ۔ یہ فیصلہ حکومت اور سیکورٹی افواج کا ہے جس کی حمایت پوری قوم کررہی ہے سوائے چند بے وقوف انسانوں کے جو اس کو امریکا کی جنگ قرار دے رہے ہیں ۔ ان سے پوچھا جائے کہ دہشت گرد کس کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اس پر دہشت گردوں کے حمایتی خاموش ہیں یہ ایک حقیقت ہے کہ دہشت گردوں نے پورے ملک اور ریاست کو یرغمال بنایا ہوا ہے ۔ وہ جہاں چاہے حملے کرتے رہتے ہیں۔ حالیہ سالوں میں پچاس ہزار سے زائد معصوم انسانوں کو شہید کیا گیا ہے اور پانچ ہزار سے زائد سیکورٹی اہلکار جاں بحق ہوئے ہیں ۔ اتنے بڑے قتل عام کے بعد یہ دہشت گرد کسی بھی رحم اور حمایت کے مستحق نہیں ہیں ۔ حکومت کا یہ فیصلہ درست ہے گوکہ یہ بہت دیر بعد آیا ہے۔ افغانستان سے آمدہ اطلاعات کے مطابق بین الاقوامی افواج اور افغان نیشنل آرمی پوری طرح حکومت پاکستان سے تعاون کررہی ہے ۔ اس میں اطلاعات کا تبادلہ اور سرحد کو مکمل طورپر سیل کرنا شامل ہے تاکہ دہشت گرد افغانستان میں پناہ نہ لے سکیں ۔ دوسری جانب حکومت پاکستان کا افغانستان سے جائز مطالبہ ہے کہ نورستان اور افغانستان سے ملحقہ علاقوں میں افغان فوج کارروائی کرے کیونکہ ملافضل اللہ اور اس کے حمایتی انہی علاقوں سے پاک سرزمین پر اکثر و بیشتر حملہ آور ہوتے رہتے ہیں اور وہ بھی معصوم انسانوں کے قتل عام میں برابر کے شریک ہیں ۔ پاکستان کا یہ مطالبہ جائز ہے کہ افغان سرزمین پاکستان اور اس کے عوام کے خلاف استعمال نہیں ہونی چائیے ۔ حکومت افغانستان ان تمام ٹھکانوں کو تباہ کرے جہاں پر ملا فضل اللہ اور اس کے حامیوں نے پناہ لے رکھی ہے ۔ عوامی حلقے یہ جائز توقع رکھتے ہیں کہ حالیہ آپریشن بلا امتیاز ہوگا۔ اچھے یا برے طالبان میں تمیز نہیں کی جائے گی ۔ سب کے ٹھکانوں پر حملہ ہوگا اور سب کے اسلحہ کے ڈپو‘ ٹریننگ کے اڈے اور کمانڈ اور کنٹرول کو تیزی سے تباہ کیاجائے گاتاکہ وہ اپنے متبادل اڈے قائم نہ کر سکیں ۔ عوامی حلقوں کی یہ توقع بھی جائز ہے کہ پاکستان جلد سے جلد امن کا گہوارہ بن جائے اور ملک کے باشندے پرسکون اور خوشحال زندگی گزار سکیں ۔ ایسی صورت حال میں تمام پارٹیوں اور سیاسی رہنماؤں پر یہ فرض بنتاہے کہ دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کی نہ صرف حمایت کریں بلکہ ان میں شامل ہو کر مسلح افواج کی مدد کریں ۔ خطے کی صورت حال کے پیش نظر یہ ضروری تھا کہ پاکستان کے اندر دہشت گردی کے تمام اڈوں کوتباہ کیاجائے تاکہ ہمارے پڑوسی ممالک خصوصاً چین کو یہ شکایت نہ ہو کہ مسلمان باغی پاکستان کی سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے چین پر حملہ آور ہوتے ہیں ۔ کم سے کم ان دہشت گردوں کو پاکستان میں پناہ نہیں ملنی چائیے جو پاکستان کے تعلقات ہمسایہ ممالک سے خراب کرنا چاہتے ہیں ۔ اس دوران دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر ڈرون حملے شاید نیک شگون ثابت ہوں ۔