سندھ کے وزیراعلیٰ کے مشیر سید خادم علی شاہ نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ گیس پر وفاقی سرچارج اور ٹیکس کی رقم صوبوں میں تقسیم کی جائے ۔ انہوں نے یہ بات تسلیم کرنے سے انکا رکیا کہ وفاق صوبوں میں گیس کا بنیادی ڈھانچہ تعمیر کرنا چاہتی ہے ، اسلئے صارفین پر اضافی ٹیکس اور سرچارج کا بوجھ لاد دیا گیا اور یہ رقم وفاق نے اپنے خزانے میں رکھ لی ہے ۔ سندھ کے وزیراعلیٰ کے مشیر کا یہ کہنا تھا کہ اس سے صوبوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور نہ ہی دور دراز علاقوں خصوصاً سندھ اور بلوچستان کے لوگوں کو گیس کی سہولت فراہم کی گئیں ۔ آج بھی پنجاب اور اس کی صنعت اسی فیصد گیس استعمال کرتی ہے اور گیس کی چوری بھی پنجاب میں زیادہ ہوتی ہے ۔ جس کو روکنے کیلئے وفاق اور پنجاب کی حکومتیں ناکام ہوگئیں ہیں۔ ویسے بھی زیادہ گیس چوروں کا تعلق کسی نہ کسی ذریعے سے حکمران پارٹی سے ہے بلکہ صوبائی اور قومی اسمبلی کے ارکان نے اپنے اپنے حلقہ انتخاب کو گیس چوری کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے ۔ اس لئے گیس کا بحران ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ البتہ سندھ کا یہ مطالبہ جائز ہے گیس کی بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کیلئے جو سرچارج یا ڈیوٹی لگائی گئی ہے وہ پوری کی پوری رقم صوبوں کے حوالے کی جائے ۔ ایران پاکستان گیس پائپ لائن کی تعمیر سے بلوچستان اور سندھ کو فائدہ ہورہا تھا اس پلان کو مسلم لیگ ن نے تباہ کردیا ۔ اب اسکی تعمیر میں زیادہ مشکلات ہوں گی ۔ پہلے تو گیس کی خریداری میں پاکستان اور بھارت پیش پیش تھے اب پوری یورپی یونین خریداروں کی لسٹ میں شامل ہوگی ۔اب کیوں کر سستے داموں گیس پاکستان یا بھارت کوملے گی ۔ پاکستان کو پہلے پچاس کروڑ ڈالر کے قرضے کے ساتھ دوسری سہولیات ایران نے فراہم کیں تھیں ۔ اب ایران پاکستان کو کوئی سہولت فراہم نہیں کرے گا۔ پاکستان نے یہ بد عہدی کی ہے لہذا ایران اس کی سزا ضرور ہمیں دے گا۔ اس منصوبے میں شریف برادران کو یہ اعتراض تھا کہ ایران گیس پائپ لائن پنجاب سے نہیں گزرے گی ۔ اس کا زیادہ تر فائدہ بلوچستان اور سندھ کو ہوگا جو شریف برادران اور ان کی مسلم لیگ کو قابل قبول نہیں تھا۔ اب ایران نے اعلان کیا ہے کہ وہ معاہدے پر عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں بھاری جرمانہ وصول کرے گا اور وہ اس کے لئے بین الاقوامی عدالت تک جائے گا۔ وزیراعظم پاکستان کو صرف ایران سے تجارت میں دلچسپی تھی اور دوسرے معاملات میں ان کی کوئی سنجیدہ رائے نہیں تھی اس لئے آخری اعلامیہ میں یہ کہا گیا کہ تجارت کا حجم پانچ ارب ڈالر تک لے جایا جائے گا۔ ایران کے ساتھ سیکورٹی کے معاملات خصوصاً علاقائی سلامتی دہشت گردی کو زیادہ اہمیت نہیں دی گئی۔ پاکستان میں گیس کا بحران جاری رہے گا کیونکہ اضافی گیس کی پیداوار کی امید اب صرف بلوچستان سے رہ گئی ہے ۔ اگر بلوچ تنازعہ حل نہ ہوا تو پاکستان کو معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ حکومت بلوچستان کو سندھ کے مطالبے کی حمایت کرنی چائیے کہ وہ تمام ٹیکس اور سرچارج جو وفاق گیس کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے لئے صارفین سے وصول کررہی ہے ،وہ سب صوبوں کو دیاجائے جو گیس پیدا کرتے ہیں۔ وفاق نے بلوچستان کے صرف تین اضلاع کومحدد وپیمانے پر گیس کی سہولیات فراہم کی ہیں اور باقی 29اضلاع کو گیس کی سہولت سے گزشتہ ساٹھ سالوں سے محروم رکھا گیا ہے حالانکہ پچاس سال سے زائد عرصے تک بلوچستان ہی پورے پاکستان کو گیس سپلائی کرتا رہاہے اور 1990کی دہائی سے سندھ میں گیس اور تیل کے ذخائر دریافت ہوئے تھے۔
سندھ کا جائز مطالبہ
وقتِ اشاعت : June 18 – 2014