وزیرستان میں فوجی آپریشن شروع ہونے کے بعد ملک بھرمیں سیکورٹی ہائی الرٹ کردی گئی ہے۔ فوج اور ایف سی کے دستے کئی ایک حساس اداروں میں تعینات کیے گئے ہیں ۔ اڈیالہ جیل بھی فوج کے حوالے کیا گیا ۔ اسلام آباد کے ریڈ زون میں سیکورٹی سخت کی گئی ۔ لاہور، کراچی اور کوئٹہ میں بھی ایسی ہی صورت حال ہے ۔ بلوچستان کے بڑے بڑے شہروں میں بھی اسی قسم کے اقدامات اٹھائے گئے ہیں ۔ مگر بلوچستان میں توجہ کا مرکز پولیس اور لیویز ہیں کیونکہ ان میں مقامی لوگوں کی تعداد زیادہ ہے ۔ پھر اداروں کی آپس کی ناراضگی سے بھی پولیس کی اہلیت پر ضرب پڑتا رہا ہے ۔ پولیس کبھی بھی مکمل طورپر ایک تربیت یافتہ فورس نہیں رہی ۔ باہر سے اچھے افسران کو پولیس فورس میں تعینات کرنے سے پولیس کی کارکردگی میں اضافہ نہیں ہوتا بلکہ اچھے افسر ان تمام معاملات سے لا تعلق نظر آتے ہیں ۔ اس لئے حکومت پولیس کی اہلیت اور کارکردگی سے زیادہ توقعات نہیں رکھتی ۔ بلکہ صوبائی حکومت کیلئے یہ بڑی بات ہے کہ وہ باہر سے آنے والے مہمان افسروں کو ترغیب دے کہ وہ اپنا کردار ادا کریں ۔ ویسے بھی مقامی افسروں سے متعلق مشہور ہے کہ ان کے اچھے سے اچھے افسروں کو بعض طاقتور عناصر شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ آیا وہ دشمن ممالک کے ایجنٹ تو نہیں۔ باہر سے آنے والے افسروں کو بلوچستان کے حالات سمجھنے کیلئے کئی سال چائییں۔ تین سال کی پوسٹنگ سے ہر غیر مقامی افسر بلوچستان کے معاملات کا ماہر بن جاتا ہے ۔ کم سے کم ان کے اسلام آباد یا لاہور واپسی کے بعد ان کو بلوچستان کے معاملات کا ماہر سمجھا جاتا ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وفاقی حکومت بلوچستان کے معاملات پر غلطیوں پر غلطیاں کرتی جارہی ہے ۔ نیم حکیم خطرہ جان ، اس مشکل صورت حال سے نمٹنے کیلئے پولیس اخبارات میں اشتہارات شائع کرا رہی ہے کہ عوام ان سے تعاون کریں ۔ وہ تمام اطلاعات پولیس کو پہنچائیں ،وہ خود کوئی کام نہیں کریں گے۔ جو کام کرنے کے اہل مقامی افسران ہیں ان پر اعتبار نہیں ۔ پولیس کی کارکردگی اس بحران میں ایک سوالیہ نشان رہے گی کیونکہ پولیس کو پروفیشنل انداز میں تربیت نہیں دی گئی ویسے بھی عام لوگوں کو یہ دل چسپی نظر نہیں آتی کہ وہ اہم معلومات پولیس کو فراہم کریں ۔ ہاں لوگ ضرور ایسی اطلاعات فراہم کریں گے مگر افسر قابل اعتبار ہو ان کی ساکھ اچھی ہو ۔ اگر تھانے میں رشوت کا کاروبار زور و شور سے جاری ہو تو کوئی شریف آدمی حساس اطلاعات فراہم کرنے کرپٹ پولیس افسر کے قریب بھی نہیں جائے گا ۔ اس کے لئے یہ بہتر ہے کہ خاموش رہے کیونکہ کرپٹ پولیس افسر سے یہ خطرہ رہتا ہے کہ اطلاع فراہم کرنے والے کو ہی گرفتار کر لیا جائے اور سارے الزامات ان پر تھوپ دی جائیں ۔ حساس معلومات فراہم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ معلومات وصول کرنے والا افسر قابل اعتبار بھی ہو ۔ عوام الناس کا دوسرے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے زیادہ تعلق نہیں رہتا کوینکہ وہ زیادہ تر اجنبی ہیں اور مشترکہ دلچسپی دونوں طرف نہیں ۔ لہذا دوسرے قانون نافذ کرنے والے ادارے اس بحران میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکتے ۔البتہ دہشت گردی اور حملوں کی صورت میں دوسرے سیکورٹی ادارے پولیس سے زیادہ موثر ثابت ہوتے ہیں۔ پولیس کا اطلاعات کیلئے عوام الناس پر انحصار بے معنی ہے ۔ پولیس خود حساس معلومات اکٹھا کرے تو بہتر ہے ۔ افسران اپنی فورس کو استعمال کرکے اطلاعات جمع کریں اور دہشت گردی کے خلاف ایک موثر کردار ادا کریں ۔ یہ بھی مصدقہ اطلاعات ہیں کہ لیویز اور پولیس نے دہشت گردوں کو گرفتار کیا بلکہ رنگے ہاتھوں گرفتار کیالیکن زیادہ طاقتور اہلکار ان کو چھڑا کر لے گئے کہ یہ معصوم ہیں ۔