|

وقتِ اشاعت :   June 20 – 2014

حسب سابق حکومت بلوچستان نے بجٹ دستاویزات کو خفیہ اور مقدس سمجھتے ہوئے اس سے عوام الناس اور میڈیا کو رسائی سے محروم رکھا حکمرانوں کی نظر میں یہ ایک مقدس دستاویز ہے لہٰذا اس کو عوام اور میڈیا کی پہنچ سے دور رکھا جائے دوسری وجہ یہ ہے کہ حکومت وقت اتنی مقبول ہے کہ اس کو عوام الناس میں میڈیا کے ذریعے تشہیر کی ضرورت نہیں ہے روایات کو برقرار رکھتے ہوئے افسر شاہی نے بجٹ دستاویزات میڈیا کو دینے سے انکار کیا ہمارے بہت ہی سینئر صحافی کے ساتھ نہ صرف تلخ کلامی کی بلکہ صاف طور پر یہ کہا کہ دستاویزات نہیں ملیں گی کیوں نہیں ملیں گی اس کا جواب کسی بھی افسر نے نہیں دیا یہ دوسرا سال ہے کہ موجودہ حکومت نے بجٹ کی دستاویزات اخبارات اور میڈیا کو فراہم نہیں کیں جبکہ دوسری جانب وزیراعلیٰ یہ شکایت کرتے رہے ہیں کہ انہوں نے اتنے کارنامے سرانجام دیئے ہیں میڈیا میں اس کی تشہیر نہیں ہوئی تشہیر بھی کیوں ہو حکومت خود معلومات کی فراہمی میں رخنہ ڈالتی ہے پورے پاکستان میں بجٹ کی زیادہ سے زیادہ تشہیر کیلئے وفاقی اور صوبائی حکومتیں سوائے بلوچستان حکومت کے تمام صحافیوں کو دستاویزات ان کے گھر اور دفاتر تک پہنچائی جاتی ہیں بلکہ تمام حکومتیں صحافیوں کو وہ تمام تر سہولیات فراہم کرتی ہیں کہ عوام الناس کو یہ تمام معلومات اخبارات کے ذریعے پہنچ جائیں اس کے لئے صحافیوں کو ہوائی جہاز کے ٹکٹ رہائش اور ٹرانسپورٹ تک فراہم کی جاتی ہے تاکہ بجٹ کے اچھے کام کی زیادہ تشہیر کی جاسکے دوسری طرف حکومت بلوچستان ہے جو ہر چیز کو خفیہ رکھنے میں اس حد تک بضد ہے کہ وہ سینئر صحافیوں سے تلخ کلامی پر اتر آئی ہے کسی قیمت پر بجٹ کی مناسب تشہیر نہیں کرانا چاہتی یہ بات سب کو معلوم ہے کہ حکومتی ارکان کی سب سے بڑی کمزوری PSDP ہے جس میں وزراء کا ذاتی ترقیاتی پروگرام سب سے زیادہ نمایاں ہے اس لئے اس کا خفیہ رکھنا ضروری سمجھا جاتا ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو یہ نہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس میں کتنی گٹر بناؤ اسکیمیں ہیں تاکہ اس کی معلومات عوام تک نہ پہنچیں معاشی ترقیاتی منصوبے کے دو اہداف ہیں پہلا کہ کسی منصوبہ پر عملدرآمد سے روزگار کے مواقع پیدا کئے جائیں اور دوسرا یہ کہ ریاست کی آمدنی میں اضافہ کیا جائے اگر کسی منصوبے سے یہ وہ اہداف حاصل نہیں ہوتے تو وہ گٹر بناؤ اسکیم سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی حالیہ بجٹ کا منفی اور نمایاں پہلو یہ ہے کہ غیر ترقیاتی بجٹ میں 10 ارب روپے کا اضافہ ہوگیا ہے ماہرین معاشیات یہ توقع کررہے تھے کہ اس بجٹ میں غیر ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی ہوگی اور زیادہ سے زیادہ رقم معاشی ترقی کیلئے استعمال میں آئے گی مگر ایسا نہیں ہوا دوسری افسوسناک بات یہ ہے کہ رواں سال میں ترقیاتی اخراجات میں پانچ ارب روپے کم خرچ کئے گئے کیوں؟ اس کا کوئی جواب نہیں ہے صحت، تعلیم اور دوسرے شعبوں میں اضافی رقم رکھی گئی ہے مگر وہ صرف غیر ترقیاتی اخراجات کیلئے، پوری بجٹ تقریر میں صرف نعرے بازی نظر آتی ہے اس میں بجٹ تفصیلات کم ہیں یا نہ ہونے کے برابر ہیں یہ عوام الناس کے ساتھ زیادتی ہے کہ اس غریب صوبے کے 164ارب روپے غیر ترقیاتی اخراجات پر خرچ ہوں ماہرین معاشیات یہ جائز توقع رکھتے ہیں کہ غیر ترقیاتی اخراجات میں زبردست کمی ہو اور ترقیاتی عمل کو تیز کردیا جائے مگر اس بجٹ میں اس کے برعکس کام ہوا جو گزشتہ50سالوں سے ہورہا تھا۔