|

وقتِ اشاعت :   June 20 – 2014

کوئٹہ: مشیر خزانہ بلوچستان میر خالد لانگو نے کہا ہے کہ 50 ارب روپے کا ریکارڈ ترقیاتی بجٹ پیش کرکے ثابت کردیا ہے کہ ہم نے عوام کی ترقی اور خوشحالی کے جو وعدے کئے ہیں انہیں پورا کررہے ہیں ، صوبے کے آمدن کا بڑا ذریعہ گیس کی مد میں ملنے والی رائلٹی ہے جس کی مقدار میں کمی کے ساتھ ساتھ رائلٹی بھی کم ہورہی ہے مستقبل میں صوبے کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں ، وفاقی حکومت نے ریکوڈک منصوبے سے آغاز حقوق بلوچستان کے تحت 30 فیصد دینے کا وعدہ کیا ہے جو اب تک پورا نہیں ہوا ہے ، چینی کمپنی پروجیکٹ کی ملکیت بلوچستان کو دینے کے لئے 27 ارب روپے مانگ رہی ہے جس کی ادائیگی ہماری بس میں نہیں ہے ، 4.5 بلین روپے ریکوڈک میں 7 کلو میٹر ایرے کی ایکسپلوریشن پر خرچ کی جائے گی اگر کامیابی حاصل ہوئی تو ملک اور صوبے کی تقدیر بدل جائے گی ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے صوبائی سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کے ہمراہ پوسٹ بجٹ بریفنگ کے موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کیا ۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی تاریخ میں پہلی بار 50 ارب روپے کی خطیر رقم ترقیاتی منصوبے کے لئے مختص کی گئی ہے جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ موجودہ حکومت نے بلوچستان کے عوام کے ساتھ ترقی وخوشحالی کے لئے جس وابستگی کا اظہار کیا تھا وہ پورا کررہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے سال ترقیاتی منصوبوں کے لئے مختص جو رقم بچ گئی تھی وہ نئے مالی سال کی ترقیاتی بجٹ میں شامل کیا گیا ہے اس وجہ سے ترقیاتی بجٹ 50 ارب روپے ہوا ہے ، سادگی اور بچت میں ناکامی سے متعلق سوال پر انہوں نے بتایا کہ وزراء اور اراکین اسمبلی کی تنخواہوں اور الاؤنسز میں اضافے کے باعث اخراجات 32 کروڑ سے 53 کروڑ روپے ہوگئی وزراء اور اراکین اسمبلی کی تنخواہیں بہت کم تھی تنخواہیں بڑھانے کا مقصد کرپشن کی رجحان کو بھی روکنا تھا ۔ گیس ڈویلپمنٹ سرچارج کی مد میں آمدن میں کمی سے متعلق انہوں نے کہا کہ مجموعی قومی پیداوار میں بلوچستان کا حصہ 20 فیصد رہ گیا ہے جب مجموعی پیداوار میں کمی واقع ہوگی تو ہمیں گیس ڈویلپمنٹ سرچارج کی مد میں بھی حصہ کم ملے گی اس وقت ہمیں بلوچستان میں مزید گیس اور تیل کے ذخائر دریافت کرنے کی ضرورت ہے اگر ہم نے ایسا نہیں کیا تو مستقبل میں یہ صوبے کے لئے نیک شگون نہیں ہوگا ۔ وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی جانب سے اسمبلی فلور پر سیکرٹ فنڈ کی بندش کے اعلان کے باوجود موجودہ بجٹ میں سیکرٹ فنڈ رکھنے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ سلسلہ ہمیشہ سے چلتا آرہا ہے سیکرٹ فنڈ کو غلط مطلب میں نہ لیا جائے ضرورت پڑنے پر اس فنڈ کو استعمال میں لایا جاتا ہے ۔ ڈپٹی کمشنر اور آئی جی پولیس کے ساتھ بھی سیکرٹ فنڈ ہوتا ہے جو امن وامان کی بہتری سمیت کسی بھی صورتحال میں استعمال میں لایا جاتا ہے ۔ سیندک پروجیکٹ سے متعلق انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت اور چائنا کی کمپنی ایم سی سی کے درمیان ففٹی ففٹی کی بنیاد پر معاہدہ ہوا ہے تاہم وفاقی حکومت نے آغاز حقوق بلوچستان کے تحت اپنے حصے سے 30 فیصد حصہ بلوچستان کو دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن افسوس کہ وہ وعدہ اب تک وفا نہیں ہوسکا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ سیندک پروجیکٹ کے حوالے سے واجبات ہیں کمپنی کا کہنا ہے کہ جب ایکسپلوریشن ہورہا تھا اس وقت ہم نے 27 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی تھی حکومت بلوچستان ان واجبات کو ادا کرے جبکہ حکومت بلوچستان کا موقف ہے کہ ہمیں صرف 10 سال میں ا س سے 10 ارب کی آمدن ہوگی ۔ انہوں نے کہا کہ ہم 27 ارب روپے دے کر 10 ارب روپے لینے کی پوزیشن میں نہیں اس لئے ہم نے وفاق کی جانب سے 30 فیصد حصہ اور اس کے علاوہ 5 فیصد رائلٹی پر اکتفا کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے سال انویسٹمنٹ کے لئے 12 ارب روپے مختص کئے تھے جن میں 4.5 بلین ریکوڈک کے لئے رکھے گئے تھے جہاں پر ایچ فور کے نام سے ریکوڈک میں موجود 7 کلو میٹر علاقے کا ایکسپلوریشن کرنا تھا جیالوجیکل سروے کی رپورٹ کے مطابق اگر ہم 7 کلو میٹر کی مائننگ کرنے میں کامیاب ہوگئے تو ا س سے پاکستان کی تقدیر بدل جائے گی ۔ انہوں نے کہا کہ ان 12 ارب روپے میں سے 5 بلین انڈومنٹ فنڈ کے لئے مختص کئے ہیں ۔ خالد لانگو نے کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ جو ترقیاتی فنڈ خرچ نہیں کی جاسکی وہ لیپس ہوگئے اور وہ وفاقی حکومت کو چلے گئے انہوں نے کہا کہ یہ رقم لیپس نہیں ہوئے بلکہ ہم نے نئے ترقیاتی سال کے بجٹ میں شامل کرلیا ہے ۔ پرانے اسکیمات کو ختم کرنے سے متعلق انہوں نے کہا کہ کسی اسکیم کو ختم نہیں کیا گیا ہے البتہ جن علاقوں میں کام مشکل تھا اور انسانی جانوں کو خطرات درپیش تھے ان کی اسکیمات کی رقوم عارضی طور پر دیگر اسکیمات کی تکمیل کے لئے منتقل کیا گیا ہے تاہم حالات بہتر ہونے پر ادھورے اسکیمات کو مکمل کیا جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں نقل اور سفارش کلچر کے خاتمے کے لئے ضروری ہے کہ ہم تعلیمی نظام کو بہتر بنائے یہ اس وقت ممکن ہے جب ہم قابل اساتذہ کو بھرتی کرے ، اساتذہ کی بھرتی کے لئے این ٹی ایس نظام کے تحت ٹیسٹ لینے کا فیصلہ کیا ہے ۔ بے روزگاری کے خاتمے سے متعلق انہوں نے کہا کہ 3 ہزار 9 سو 25 آسامیاں بجٹ میں مختص کی گئی ہیں البتہ ترقیاتی منصوبوں اور پروجیکٹس میں بھی بہت ساری ملازمتیں آئے گی جس سے یہاں کے عوام کو فائدہ ہوگا ۔ ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد کے علاوہ کنونس اور میڈیکل الاؤنس میں بھی اضافہ کیا گیا ہے جس سے صوبائی حکومت کو 5 ارب سے زائد کا اضافی بوجھ برداشت کرنا پڑے گا ۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے اس سال صوبے میں 10 ڈیمز بنانے کا وعدہ کیا ہے مگر ہم نے شرط رکھی ہے کہ ان ڈیموں کے لئے سو فیصد بجٹ اسی سال ریلیز کیا جائے تاکہ یہ کام ادھورا نہ رہ سکے البتہ 46 ڈیموں پر اس وقت کام جاری ہے ۔ انہوں نے کہا کہ 2014-15 میزانیہ کا کل حجم 215 ارب 71 کروڑ 30 لاکھ روپے ہیں جس کی تقسیم کچھ ا س طرح ہے جاری اخراجات ایک سو 35 ارب 5کروڑ سرمایہ جاتی اخراجات 29 ارب 92 کروڑ 10 لاکھ ، ترقیاتی اخراجات 50 ارب 74کروڑ 20 لاکھ ، آمدن کا تخمینہ 2 سو ارب 5 کروڑ 10 لاکھ ، جاری آمدن ایک سو 76 ارب 22 کروڑ 20 لاکھ اور سرمایہ جاتی آمدن 23 ارب 27 کروڑ 90 لاکھ ، بیرونی امداد قرضہ برائے ترقیاتی 2 ارب 79 کروڑ 20 لاکھ ، صوبائی ذرائع سے حاصل شدہ آمدن 8 ارب 97 کروڑ ، مرکزی ذرائع سے آمدن ایک سو67 ارب 80 کروڑ 12 لاکھ ، 2014-15 کے لئے پی ایس ڈی پی کا حجم 50 ارب 74 کروڑ 20 لاکھ جس میں بیرونی امداد کے 2 ارب 72 کروڑ 30 لاکھ شامل ہیں ۔ نئے مالی سال میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا ہے ۔