|

وقتِ اشاعت :   June 20 – 2014

اسلام آباد: وزیراعلٰی پنجاب شہباز شریف نے جب یہ احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ تحریک منہاج القرآن سیکریٹیریٹ کے ارد گرد دو روز سے جاری آپریشن سے بے خبر تھے اور ٹی وی چینلز نے پولیس اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں کے درمیان ہونے والے تصادم کی رپورٹیں دکھانا شروع کردیں، تو ان کی اس بات سے بہت سے لوگ یہاں تک کہ حکمران جماعت مسلم لیگ میں بھی حیرت زدہ رہ گئے۔ جمعرات کے روز وزیرِ اعظم کے دفتر میں منعقدہ ایک اجلاس کے دوران وزیرِ اعلٰی لاہور میں ہونے والی خونریزی کے حوالے سے اپنا نکتہ نظر پیش کرنے کے لیے دارالحکومت آئے تھے۔ اس مشاورت سے آگاہ ایک سرکاری اہلکار کے مطابق شہباز شریف نے کہا کہ انہیں ماڈل ٹاؤن میں منہاج القرآن سیکریٹیریٹ کے نزدیک گڑبڑ کے بارے میں سب سے پہلے صبح ساڑھے آٹھ بجے علم ہوا۔ اہلکار نے بتایا کہ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ انہوں نے یہ سن کر فوری طور پر پولیس کو حکم دیا کہ وہ اس معاملے سے علیحدہ ہوجائے۔ شہباز شریف نے اس اجلاس میں کہا ’’پولیس کو اس معاملے سے علیحدہ رہنے کی ہدایت دینے کے فوراً بعد، میں چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے تقریبِ حلف برداری میں شرکت کے لیے چلا گیا۔ اس تقریب کے دوران میں مطلع کیا گیا کہ یہ صورتحال بدتر ہوگئی ہے۔ میں نے دوبارہ پولیس کو پیغام بھیجا کے وہ پیچھے ہٹ جائے۔‘‘ مذکورہ اہلکار کے مطابق شہباز شریف کے الفاظ کا حوالہ دیا، جو انہوں نے اس اجلاس کے شرکاء کے سامنے کہے، اس میں ان کے بڑے بھائی وزیراعظم بھی شامل تھے، سب ان کی بات کو محویت سے سن رہے تھے۔ انہوں نے کہا ’’تاہم بدقسمتی سے پولیس اس وقت میرے احکامات پر عملدرآمد کرنے میں ناکام رہی۔‘‘ شہباز شریف کے مطابق پولیس نے دو بنیادی غلطیاں کیں۔ اوّل یہ کہ ان سے پیشگی اجازت حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی گئی، اور دوسری یہ کہ اس جگہ خودکار ہتھیار لے کر گئی، جس کی وہاں کوئی ضرورت نہیں تھی۔ وزیراعلٰی پنجاب کے لیے یہ تسلیم کرنا نہایت شرمندگی کا باعث تھا، جنہوں نے کئی سالوں کے دوران اچھے منتظم کی شہرت حاصل کی تھی،کہ اس طرز کا ایک اہم آپریشن کی منصوبہ بندی، اس کا فیصلہ اور اس پر عملدرآمد ان کے علم میں لائے بغیر کرلیا گیا تھا۔ شہباز شریف نے اپنے بڑے بھائی سے وعدہ کیا کہ ایسی صورتحال جس کے نتیجے میں معصوم لوگوں کی جانوں کا نقصان ہوا، اس میں جو کوئی بھی ملؤث پایا گیا، میں اس کو ہرگز نہیں چھوڑوں گا۔ تاہم انہوں نے اس اجلاس کو بتایا کہ ابتدائی رپورٹس کے مطابق منہاج القرآن سیکریٹیریٹ کے گارڈز نے سب سے پہلے فائرنگ شروع کی تھی۔ چونکہ ان کا نشانہ پولیس تھی، اس لیے پولیس کے دستے نے گھبراہٹ میں جوابی فائرنگ کی۔ ان سے سوال کیا گیا کہ وہ مزید تفتیش کے لیے کس طرح اسی پولیس پر اعتماد کرسکتے ہیں، جس نے انہوں ایسی شرمندگی سے دوچار کیا، تو وزیرِ اعلٰی نے جواب دیا ’’اس تشویش کے حل کے لیے میں ایک متوازی انکوائری کروا رہا ہوں۔ اس سے یہ بات یقینی ہوجائے گی کہ مجرم سز ا سے نہیں بچ سکے گا۔ اپنے بھائی کی باتوں کو محتاط ہوکر سننے کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے ان سے کہا کہ وہ اس المناک واقعے کی تیز رفتار انکوائری کے لیے اپنے تمام وسائل بروئے کار لائیں۔ نواز شریف نے وزیرِ اعلٰی سے کہا ’’اس انکوائری کے سیاسی مضمرات کو نظرانداز کردیں۔ آپ کی پہلی توجہ اس معاملے میں ذمہ دار مجرموں کو جس قدر جلدی ممکن ہو کیفرِ کردار تک پہنچانا ہے۔‘‘ مسلم لیگ نون کے ذرائع کے مطابق وزیراعظم لاہور میں منگل کے روز ہونے والے تصادم پر سخت برہم تھے، اس کی وجہ سے شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن شروع کرنے کے حکومتی فیصلے پر سے لوگوں کی توجہ ہٹ گئی تھی۔