یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ امسال بھی حکومت نے 15.7ارب روپے کے خسارے کا بجٹ پیش کردیا ۔ اس خسارہ کو اخراجات میں کمی کرکے پورا کیاجاسکتا ہے ۔ یہاں یہ گنجائش نظرنہیں آتی کہ حکومت صوبائی آمدن میں اضافہ کرسکتی ہے ابھی صوبائی حکومت اور اس کی مشینری میں یہ اہلیت نظرنہیں آتی کہ وہ صوبے کی 8.9ارب روپے کی آمدنی میں ایک ارب کا اضافہ کرے ۔ بلکہ موجودہ اضافہ بھی سندھک پروجیکٹ کی مرہون منت ہے اور اس نے سالانہ صوبائی خزانہ میں ایک کثیر رقم جمع کرادی ہے ۔ البتہ یہ بات غیر واضح ہے کہ حکومت کس مد میں ریکوڈک اور سندھک پروجیکٹ پر پانچ ارب روپے خرچ کرے گی ۔ اس کی تفصیلات مشیر خزانہ نے اپنی تقریر میں نہیں بتائیں اور یہ عوام کی نظروں سے بھی اوجھل ہے ۔ 10ارب روپے کے اضافی غیر ترقیاتی اخراجات سے متعلق وزیراعلیٰ نے بتایا کہ وفاقی حکومت نے سات ہزار لیڈی ہیلتھ ورکرز اور پانچ ہزار اساتذہ کا بوجھ صوبائی حکومت پر ڈال دیا جس کی وجہ سے غیر ترقیاتی اخراجات میں امسال اضافہ ہوگا ۔بہر حال غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی کا عملی مظاہرہ نہیں کیا گیا ۔ وزیروں اور مشیروں کے پاس اب بھی لگژری گاڑیوں کے کارواں موجود ہیں ۔ وزراء کی شاہ خرچیاں عوام الناس کے زبانوں پر ہے ۔ تاہم یہاں گنجائش موجود ہے کہ غیر ترقیاتی اور انتظامی اخراجات میں کمی لائی جائے اور اس رقم کو عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جائے ۔ بلوچستان وہ پسماندہ اور بد نصیب صوبہ ہے جہاں پر حکمرانوں کی سیاست سالانہ ترقیاتی پروگرام یا پی ایس ڈی پی کے گرد گھومتی ہے۔ اکثر بلوچ قوم پرست پارٹیاں یہ الزام لگاتی ہیں کہ بلوچ علاقوں کو نظر انداز کیا جارہا ہے اور ان سے امتیازی سلوک روا رکھا جارہا ہے ۔ منصوبہ بندی اور ترقیات کے محکمے پر گزشتہ 16سالوں سے غیر بلوچوں کا قبضہ ہے اور شاید اسی امتیازی سلوک کی وجہ سے کچھ ملازمین نے قلم چھوڑ ہڑتال بھی کی تھی ۔ گزشتہ پچاس سالوں سے سالانہ ترقیاتی پروگرام کا کوئی کمال نظر نہیں آتا ۔ جتنی بھی رقم اس نصف صدی میں خرچ کی گئی وہ سب کے سب ضائع ہوگئی اس کا ثبوت یہ ہے کہ ان ترقیاتی اسکیموں سے نہ روزگار کے مواقع پیدا ہوئے اور نہ ہی ریاست کی آمدنی میں اضافہ ہوا ۔ وزراء اور ایم پی اے حضرات کی دل چسپی صرف ذاتی اسکیموں تک محدود رہی یا ان اسکیموں پر توجہ زیادہ تھی جہاں سے کمیشن متوقع تھا۔ بلوچستان میں ہر قیمت پر پی ایس ڈی پی کا غلبہ ختم ہونا چائیے اور وسائل کے استعمال کا مقصد ذاتی فوائد نہیں بلکہ معاشی ترقی ہونی چائیے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ طویل مدتی منصوبہ بندی ہونی چائیے وہ بھی صوبے کے معاشی ضروریات کو سامنے رکھ کر ۔ بجٹ میں یہ خوش آئند بات ہے کہ حکومت معاشی زون قائم کرے گی مگر یہ زون وہاں کامیاب ہونگے جہاں پرپانی صنعتی استعمال کے لئے دستیاب ہوگا۔ کوئٹہ اور قرب و جوا رمیں پینے کا پانی نہیں ہے ۔ معاشی زون تعمیر کرنے سے قبل مہیا وسائل کی موجودگی کا اندازہ لگاناچائیے چاغی ایک بہت بڑا معاشی زون ہے ۔ وہاں پر زیر زمین پانی موجود ہے ۔بجلی ایران سے فوری طورپر خریدی جا سکتی ہے قدتی وسائل بے پناہ ہیں اور موجود ہیں صرف صوبائی حکومت سے اس کی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے ۔آئندہ چند سالوں میں نوکنڈی بلوچستان کا مع شی حب ہوگا اور اسکی اہمیت گوادر ،پسنی اور لسبیلہ سے زیادہ ہوگی ۔ یہ علاقہ سینکڑوں ارب ڈالر کمانے کی استطاعت رکھتا ہے ۔ ممکن ہے کہ آئندہ دنیا بھر کے بڑے ذخائر کے برابر تیل اور گیس دریافت ہو جو نہ صرف بلوچستان بلکہ خطے کی قسمت بدل دے۔ مویشی منڈیوں کا قیام بھی خوش آئند ہے ۔ بلوچستان کے پاس گلہ بانی کے اتنے وسائل موجودہیں کہ وہ سعودی عرب سمیت خطے کے تمام ممالک کی ضروریات پوری کرسکتاہے ۔ یہی حال ڈیری کی صنعت کا ہے یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ حکومت امسال چار ہزار کے لگ بھگ سرکاری اداروں میں آسامیاں پیدا کرے گی ۔ یہ یاد رہے کہ بلوچستان کے تعلیمی اداروں سے سالانہ 25ہزار طلبہ فارغ التحصیل ہورہے ہیں ۔ سالانہ 25ہزار تعلیم یافتہ نوجوان بے روزگاری کی فوج میں شامل ہورہے ہیں لہذا پانچ ہزار آسامیاں نہ کافی ہیں حکومت سرمایہ کاری کرے اور کارخانے لگائے ۔اگر دونوں بندکپڑے کی ملوں کو دوبارہ چلایا جائے تو صرف یہ دو مل 20ہزار افراد کو نہ صرف روزگار دینگے بلکہ ملکی پیداوار میں اضافہ بھی کریں گے ۔چونکہ وفاقی حکومت نے صرف نفرت کی بنیاد پر ان دو ملوں کو بند کیا تھا تاکہ روزگار کے وسائل پیدا نہ ہوں اور اگر پیدا ہوں تو ان کو بند کیاجائے ۔ لہذا وفاقی حکومت 50ہزار اسپینڈل مشینری کی حامل دونوں ملوں کو دوبارہ چلائے یونیورسٹی کو ان ملوں سے نکالا جائے اور ان کیلئے نئے کیمپس بنائے جائیں ملوں کو بند کرنے اور یونیورسٹی کیمپس ان کی جگہ قائم کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے ۔