50 کے عشرے میں لیاری کے بچے بڑے تمام ہی فٹبالرز گنجی گراؤنڈ میں جاکر اپنا شوق پورا کیا کرتے تھے۔ اس میدان کے قریب ماری پور روڈ تھا اور ریلوے لائن گزرتی تھی اور کچھ فاصلے پر سمندر کی آخری لہر آکر ٹکراتی تھی۔ اس میدان کی زمین ریتیلی تھی اور اس کے ایک طرف پھسلن بھی تھی لیکن اسی پھسلن پر کھیل کر یہ فٹبالرز گیند پر کنٹرول اور اپنا توازن برقرار رکھنے میں مہارت حاصل کرتے تھے۔ لیاری کے بارے میں مشہور ہے کہ اس علاقے کا شاید ہی کوئی فٹبالر ایسا ہو جس نے جوانی میں اپنی فٹبال ’ کرمچ‘ کی گیند سے ننگے پاؤں شروع نہ کی ہو۔ گنجی گراؤنڈ اب صرف یادوں میں زندہ ہے جس جگہ یہ میدان ہوا کرتا تھا وہاں پیپلز پلے گراؤنڈ بن چکا ہے جو ایک طویل عرصے تک قانون نافذ کرنے والوں کے زیراستعمال رہا اور اس کے اصل مالک یعنی فٹبالرز اس میں کھیلنے کو ترستے رہے۔ گینگ وار نے لیاری والوں کے ماتھے پر ممنوعہ اور ناپسندیدہ کی مہر ثبت کر دی ہے ۔لیاری کی فٹبال دوستی کی ایک بہت ہی پرانی مثال 50 اور 60 کے عشرے میں امریکی اور برطانوی قونصل خانوں کی جانب سے اس علاقے میں دکھائی جانے والی فٹبال کی فلمیں تھیں جب ان قونصل خانوں کی گاڑی مقررہ تاریخ پر رات کے وقت لیاری میں آتی تھی اور پروجیکٹر کے ذریعے اس دور کے بڑے کھلاڑیوں مثلاً جارج بیسٹ۔ یوسے بیو اور برازیلین کھلاڑیوں کے میچوں کی بلیک اینڈ وائٹ فلمیں دکھائی جاتی تھیں جنھیں دیکھنے والوں میں قومی و بین الاقوامی فٹبالرز سب ہی شامل ہوا کرتے تھے۔ لیاری منی برازیل یا لٹل برازیل کے نام سے مشہور ہے اس کا بھی ایک خاص پس منظر ہے۔ لیاری کے لوگ عام طور پر افریقہ اور لاطینی امریکہ کے ہم رنگ لوگوں سے بہت ملتے جلتے ہیں یہی وجہ ہے کہ فٹبال کے میدان میں بھی ان کی پسندیدگی اپنے ہم رنگ کھلاڑیوں سے رہی ہے جن کے لیے وہ خاص قسم کے جذبات رکھتے ہیں۔ یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ لیاری کے کئی کھلاڑی برازیل اور لاطینی امریکہ کے کھلاڑیوں سے بہت مماثلت رکھتے ہیں۔ مثلاً ماضی کے ایک مشہور فٹبالر غفور مجنا برازیل کے رابرٹو کارلوس سے بہت ملتے جلتے تھے اور دونوں کا کھیلنے کا انداز بھی ایک جیسا ہی تھا۔ لیاری کی ایک بری شہرت منشیات کے گڑھ کی وجہ سے بھی رہی ہے لیکن اس دور میں بھی جب کلاکوٹ کی افشانی گلی میں کھلے عام منشیات فروخت ہوتی تھی فٹبال اور فٹبالرز ان منشیات فروشوں کے لیے مسئلہ نہیں بنتے تھے وہ اپنا کاروبار جاری رکھے ہوئے تھے لیکن فٹبال میدان بھی کھلاڑیوں اور شائقین سے بھرے رہتے تھے لیکن گینگ وار نے سب کچھ بدل ڈالا۔ کراچی میں جب ٹی وی آیا تو لیاری میں بھی ورلڈ کپ کے موقع پر ٹی وی پر میچز دیکھنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ لیاری کے فٹبالرز جہاں جہاں کھیلے اپنی دھاک بٹھائی۔ ان کے کارناموں کی گونج کلکتہ اور ڈھاکہ میں سنی جاتی رہی۔ ترکی کی قومی ٹیم پاکستان آئی تو جبار اور مولا بخش گوٹائی کی صلاحیتوں سے اس قدر متاثر ہوئی کہ انھیں اپنے ساتھ لے گئی جنھوں نے انقرہ میں چھ ماہ فٹبال کھیلی۔لیاری کی ایک بری شہرت منشیات کے گڑھ کی وجہ سے بھی رہی ہے لیکن اس دور میں بھی جب کلاکوٹ کی افشانی گلی میں کھلے عام منشیات فروخت ہوتی تھی فٹبال اور فٹبالرز ان منشیات فروشوں کے لیے مسئلہ نہیں بنتے تھے وہ اپنا کاروبار جاری رکھے ہوئے تھے لیکن فٹبال میدان بھی کھلاڑیوں اور شائقین سے بھرے رہتے تھے لیکن گینگ وار نے سب کچھ بدل ڈالا۔ اس گینگ وار نے لیاری کو کثیرالجہتی نقصان پہنچایا ہے۔ اسلحہ ، بھتہ خوری ، اغوا برائے تاوان اور ڈ کیتی کو ایک آرٹ کے طور پر متعارف کرا کر لیاری کو ہر طرح سے ایک تاریک راہ کی طرف دھکیل دیاگیا ہے۔ ایک جانب تعلیم متاثر ہوئی ہے تو دوسری جانب تفریح کے تمام ذرائع بند ہوگئے۔ ملازمتوں کے سلسلے بھی بند ہوگئے ہیں دوسرے لفظوں میں اس گینگ وار نے لیاری والوں کے ماتھے پر ممنوعہ اور ناپسندیدہ کی مہر ثبت کر دی ہے۔ کلری گراؤنڈ ،گبول پارک، مولوی عثمان پارک اور لیاری جنرل اسپتال کے قریب واقع گراؤنڈ پر ماضی میں جو گہماگہمی نظر آتی تھی وہ اب ڈھونڈنے سے نہیں ملتی۔ اگر میچز ہوتے بھی ہیں تو خوف کے سائے لہرا رہے ہوتے ہیں کہ کب کوئی بم دھماکہ ہو جائے یا اندھا دھند فائرنگ کا سلسلہ شروع ہو جائے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ لیاری میں گینگ وار اور دیگر منفی شہرت کے حامل تمام ہی قابل ذ کر نام مثلاً عبدالرحمنٰ ڈ کیت، شیر محمد شیرو اور بابو اقبال ڈکیت خود اچھے فٹبالر تھے۔ عزیربلوچ خود اچھا فٹبالر اور اس کے والد فٹبال مقابلوں کے منتظمین میں سے ایک ہوا کرتے تھے۔ لیاری والوں کو آج پھر اسی وقت کا انتظار ہے کہ پہچان اور شناخت کا ذریعہ یہ ڈکیت نہیں بلکہ محمد عمر، حسین کلر، غفور، غازی غلام عباس اور علی نواز جیسے فٹبالر بن جائیں۔
شکریہ عبدالرشید شکور
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی