کسی زمانے میں امریکہ میں ایک اخبار ’نیو یارک ہیرلڈ‘ تھا۔مدت ہوئی اب وہ ختم ہو چکا ہے ۔وہ نوے سال تک زندہ رہا ۔اس کا جرم یہ تھا کہ اس نے یہودی اثر کو قبول کرنے سے انکا کردیا ۔ویسے اس اخبار نے بڑے بڑے مفید کارنامے سرانجام دئیے ۔مثلاً اس نے ہنری اسٹینلے کو افریقہ بھیجا تا کہ وہ لیونگسٹن کو تلاش کرے۔اس نے قطب شمالی کی طرف کی جانے والی مہم کی امداد کی ۔سب سے پہلے اس کے کہنے پر بحراوقیانوس کیبل بچھائی گئی ۔اخبار نویسوں میں اس کی شہرت یہ تھی کہ نہ اس کی خبریں خریدی جاسکتی ہیں اور نہ ایڈیٹوریل۔ جمیز گارڈن بینٹ اس کا ایڈ یٹر تھا ۔اس کے دل میں یہودیوں کے خلاف کوئی تعصب نہیں تھا ۔وہ اس رائے کا تھا کہ اشتہار دینے والی فرموں کو اخباری پالیسی پر اثرانداز ہونے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اخبار کی آمدنی کا دارومدار پڑھنے والوں کے چندے پر نہیں بلکہ اشتہاروں پر ہوتا ہے اور نیویارک میں سب سے زیادہ اشتہار اشیائے خوردنی کی سٹوروں کی طرف سے دئیے جاتے ہیں۔ یہ سٹور سارے کے سارے یہودیوں کے ہیں، اس لیے یہودی اخبارات کی پالیسیوں پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں ۔اُس زمانے میں یہودیوں کی خواہش تھی کہ نیویارک کا مئیر ایک یہودی منتخب ہو ۔ان کا خیال تھا کہ اخبارات ان کی خواہش کو نظر انداز نہیں کرسکتے ۔چنانچہ ان سٹورز کے یہودی مالکوں نے ایک انتہائی خفیہ چھٹی نیویارک کے تمام اخبارات کے مالکوں کو بھیجی ،جس میں یہ کہا گیا کہ وہ یہودی امیدوار کی حمایت کریں۔ اخبارات کے مالک کئی دن تک اس چھٹی پر بحث کرتے رہے، مگر کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے ۔ان دنوں بینیٹ ملک سے باہر تھا ۔’ہیرلڈ ‘کے ایڈیٹوریل اسٹاف نے اس سارے معاملے سے اسے بذریعہ تار آگاہ کردیا ۔اس نے فوراً جواب بھیج دیا کہ ’’خط شائع کردو‘‘۔ چنانچہ’ ہیرلڈ‘ نے وہ خط شایع کردیا اور یہودی منہ دیکھتے رہ گئے۔ مگر انہوں نے یہ تہیہ کرلیا کہ وہ اس اخبار سے ضرور انتقام لیں گے ۔ ’ہیرلڈ‘ میں اعلیٰ خاندانوں کی خبریں چھپتیں تھیں مگروہ نئے نئے دولت مند بنے ہوئے یہودی خاندانوں کا ان میں شمار نہیں کرتا تھا۔ ان دنوں نیویارک میں ناتھن نامی ایک جرمن یہودی تھا جو بہت مخیر گنا جاتا تھا ۔بینیٹ اسے زیادہ اہمیت نہیں دیتا تھا ۔اس بنا پر ان دونوں میں ٹھن گئی۔ ناتھن نے ’ہیرلڈ‘ کو اشتہار دینے بند کردئیے۔ باقی یہودیوں نے اس کا ساتھ دیا۔ وہ اس اخبار کو جو آزادانہ رویہ رکھتاتھا اور ان کے اثر میں نہیں آتا تھا ۔ختم کردینا چاہتے تھے ۔اس دور میں 6لاکھ ڈالر کے اشتہارات’ ہیرلڈ‘ کو دینے بند کردئیے گئے ۔یہودیوں کا خیال تھا کہ اب یہ اخبار اس ضرب سے نہیں سنبھل سکے گا ۔اگر کوئی اور اخبار ہوتا تو یقیناًختم ہوجا تا، مگر بینیٹ اورہی قسم کا آدمی تھا اور شاید وہ یہودی نفسیات کو دوسروں سے بہتر جانتا تھا ۔اس نے ڈٹ کرمقابلہ کیا اور جواباً یہ کیا کہ اپنے اخبار میں وہ اہم جگہ جو وہ پہلے یہودیوں کودیتا تھا، وہ اب غیریہودی تاجروں کو دینا شروع کردی ۔اس کایہ نتیجہ نکلا کے غیر یہودی تاجروں نے اس اخبار کو اپنے اشتہارات دینا شروع کردئیے۔یوں نہ اخبار کی سرکیولیشن پر کوئی اثر پڑا نہ اشتہارات پر ۔الٹا یہودی اس کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگئے ۔وہ مل کر اس کے پاس گئے اور اس سے درخواست کی کہ انہیں اخبار میں ان کی پہلی جگہ دوبارہ دے دی جائے۔ بینیٹ ان سے اچھی طرح پیش آیا ،مگر اس نے ان کی بات ماننے سے اس بنا پر انکار کردیا کہ جن لوگوں کو وہ جگہ مل چکی ہے، انہیں وہاں سے ہٹایا نہیں جاسکتا ۔بینیٹ نے فتح تو حاصل کرلی مگر یہ فتح اسے مہنگی پڑی۔ معروف امریکی صنعت کارہنری فورڈ اول کی 1920ء میں لکھی گئی کتاب THE INTERNATIONAL JEWS میں ’پریس کنٹرول‘ کے عنوان سے دئیے گئے باب سے لی گئیں یہ تفصیلات کیا پاکستان بالخصوص بلوچستان میں پریس کے موجودہ حالات کی عکاسی کرتی ہوئی نظر نہیں آتیں ؟ایک عرصے سے پاکستان میں پریس کی صورت حال غریب کی جورو کی سی ہو گئی ہے۔ جس قوت کو اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا ہو،پریس اس کاتختہ مشق ہوتا ہے۔اور سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہوئی کہ طاقت ور حلقوں نے اب پریس کو تقسیم کرنا شروع کر دیا ہے۔اندرونی اور بیرونی طور پر میڈیا کی یہ تقسیم محض میڈیا ہاؤسز کے مالکان کی مالی منفعت کا سبب تو بن سکتی ہے، لیکن میڈیا ورکرز کا ایکا اس سے شدید متاثر ہوگا۔اور اگر ایک بار میڈیا اس جال میں آ گیا تو پھر نشانے بازی تو جاری رہے گا، نشانہ بدلتا رہے گا اور اگلا نشانہ ہم ،آپ میں سے کوئی بھی ہو سکتا ہے۔
دنیا بھرکے ذرائع ابلاغ میں یہ اصول رائج ہے کہ میڈیا کو کسی بھی طاقت ور حلقے کا ترجمان بننے کی بجائے عوام کی ترجمانی کرنی چاہیے۔ مہذب دنیا میں تو عوام کو ریاست سے بھی مقدم جانا جاتا ہے۔ کیونکہ ریاستیں ،عوام کے لیے ہوتی ہیں، عوام، ریاست کے لیے نہیں ہوتے۔اس لیے میڈیا میں ہمیشہ ریاستی مفادات کی بجائے عوامی مفادات کی بات کی جاتی ہے، جو بادی النظر میں حقیقی عوامی فلاحی ریاست کو مستحکم کرنے کا ہی ذریعہ ہے۔عوام خوش حال ہوں گے، تو ریاست خود مضبوط ہو گی۔محض چند اداروں کی طاقت سے ریاستیں مضبوط نہیں ہوا کرتیں۔ مگر افسوس کہ بینیٹ جیسا ایڈیٹر اور’ ہیرلڈ‘ جیسے اخبارات اب چراغ لے کر ڈھونڈنے سے نہیں ملتے کہ جو طاقتوروں کی بے جاحمایت سے کھلے عام انکار کردیں او اخبار کی پالیسی پر کسی کو اثرانداز کرنے کی بجائے کوئی ’دوسری راہ‘ تلاش کرنے کی کوشش کریں ۔جہاں ان کی آزادی اور عوام کی جانب ان کی جانب داری متاثر نہ ہو۔ موجودہ صورت حال میں بعض ٹی وی چینلزپر پابندیوں کے خلاف مزاحمت دیکھی گئی اور اس دوران فیضؔ اور جالبؔ کے انقلابی گیت بھی دکھائے گئے ۔انقلابی نظمیں شایع اور نشر کی گئیں ۔گو کہ ایسا کسی نظریاتی فکر کے تحت نہیں بلکہ خالص کاروباری بنیادوں پر ہوا۔ لیکن یہ ضرور دیکھنا چاہیے کہ ان کاروباری مفادات کے ٹکراؤ میں کہیں ریاست کی ساکھ نہ داؤ پہ لگ جائے۔اور اب حال ہی میں کراچی ایئرپورٹ اور پھرلاہور میں ہوئے واقعے کے بعد میڈیا کے لیے ایک نئے ضابطہ اخلاق کی خبریں گردش میں ہیں۔ کسی بھی نوعیت کے مسئلے پر مکالمے کی بجائے بزورِ طاقت نافذکیے گئے قانون سے میڈیا کو نکیل ڈالنا ممکن نہ ہوگا۔بہرکیف،مکالمے کی راہیں مسدود نہیں ہونی چاہئیں۔ طاقت اور مکالمے کے مابین حتمی فتح بہرحال مکالمے کی ہو گی۔دیکھنا یہ ہے کہ کون اس جیتی ہوئی بازی میں ہتھیار ڈال دیتا ہے اور کون ’ہیرلڈ‘ کے ایڈیٹر بینیٹ کی طرح استقامت اور مداومتِ عمل سے مہنگی فتح حاصل کرتا ہے ۔