اسلام آباد: ڈان کے علم میں یہ بات آئی ہے کہ سینیٹ میں تحفظ پاکستان کا بل آج پیر کے روز منظور کرلیا جائے گا۔
پچھلے ہفتے حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان ایک ترمیمی مسودے پر اتفاقِ رائے کے بعد یہ پیش رفت ممکن ہوئی۔
یہ بل پاکستان کے خلاف جنگ کرنے والوں سے سے نمٹنے کے لیے تحفظ فراہم کرتا ہے اور پاکستان کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے والوں کی کارروائیوں کی روک تھام کرتا ہے۔ اس بل کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کی جانب متفقہ طور پر 25 جون کو منظور کرلیا گیا تھا۔
اس بل کو سینیٹ کے اجلاس کے پہلے دن کے ایجنڈے پر رکھا گیا ہے، اگرچہ یہ دن ایوانِ بالا میں تیکنیکی طور پر نجی ارکان کے لیے مخصوص ہے۔
حکومت نے اس بل کے مسودے میں حزبِ اختلاف کی تجویز کردہ ایک درجن سے زائد ترامیم کو قبول کرکے اس کی منظوری کو ممکن بنایا ہے۔
یاد رہے کہ یہ بل قومی اسمبلی میں پہلے ہی متفقہ طور پر منظور کیا جاچکا ہے۔
سینیٹ کے نجی اراکین کے ایجنڈے میں اس بل کو شامل کیے جانے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سینیٹ میں یہ رسمی طور پر منظور کر لیا جائے گا۔
اس قانون کے نفاذ کی مدت کو تین سال سے کم کرکے دو سال کرنے پر حکومت نے اتفاق کیا ہے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے ایک اہم ترمیم یہ منظور کی ہے، جس کے تحت مشتبہ فرد کو گولی مارنے کا اختیار صرف قانون نافذ کرنے والی ایجنسی کے اہلکار یا پندرہ گریڈ یا اس سے زیادہ کے افسر کے پاس ہوگا۔
اس کے علاوہ اس مسودے میں ایک اہم ترمیم یہ بھی شامل کی گئی ہے، جس میں حکومت کو پابند کیا گیا ہے کہ بالفرض قانون نافذ کرنے والے ادارے کا ایک اہلکار مشتبہ دہشت گرد کو گولی مارتا ہے تو وہ محکمانہ انکوائری کے بجائے اس کی عدالتی انکوائری کا حکم دے گی۔
سینیٹ سے گزرنے کے بعد یہ بل دوبارہ قومی اسمبلی میں منظوری کے لیے بھیجا جائے گا، دو جولائی کو جس کا اجلاس پہلے ہی طلب کرلیا گیا ہے۔
اس بل کا نیا مسودہ ایک عسکریت پسند کو ریاست کو دشمن تصور کرتا ہے، اور کوئی بھی شخص اس دشمن کو پناہ دیتا پایا گیا تو اس کو بھی دشمن ہی تصور کیا جائے گا۔
نئے قانون کے تحت سزایافتہ فرد اب اپنی سزا کے خلاف ہائی کورٹ میں بھی اپیل کرسکے گا، جبکہ اس سے پہلے کے مسودے میں سزایافتہ صرف سپریم کورٹ کے سامنے ہی اپیل کرسکتا تھا۔
سینیٹ سے منظور کروانے میں حکومت کی ناکامی کے بعد تحفظ پاکستان آرڈیننس اس مہینے اپنی توسیعی مدت پہلے ہی مکمل کرچکا ہے، جو پارلیمنٹ ایکٹ کے تحت منظوری کے لیے آئینی مدت دی گئی ہے۔
یاد رہے کہ تحفظ پاکستان آرڈیننس صدر ممنون حسین نے پچھلے سال اکتوبر میں جاری کیا تھا، بعد میں صدر نے اس سال جنوری میں اصل آرڈیننس میں ترمیم کے لیے ایک اور آرڈیننس جاری کیا تھا۔
حزبِ اختلاف کے ساتھ ساتھ حکومتی اتحاد میں شامل جمیعت علمائے اسلام فضل نے بھی ان دونوں آرڈیننس مسترد کردیا تھا، ان کا کہنا تھا کہ اس کی مختلف شقیں آئین میں دیے گئے شہریوں کے بنیادی حقوق کے خلاف ہیں۔
تاہم بعد میں حکومت نے قومی اسمبلی سے اپریل میں حزب اختلاف کے احتجاج کے باوجود اس آرڈیننس کو منظور کروالیا تھا۔ لیکن سینیٹ سے اس کو منظوری میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا، جہاں حزبِ اختلاف کا کنٹرول ہے۔
پیپلزپارٹی کے سینیٹر نے ڈان کو بتایا کہ ان کی پارٹی کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کی جانب سے منظور کردہ اس بل کا مسودہ اب تک نہیں دکھایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سینیٹ کے اجلاس سے پہلے اس مسودے کا جائزہ لینا چاہیں گے۔