پاکستان عوامی تحریک اور تحریک انصاف اس بات سے لا تعلق ہیں کہ وہ ریاست اور ریاستی اداروں کو ٹارگٹ کررہے ہیں ۔ حکومت تو ایک معمولی چیز ہے اگر حکومت ہٹ جاتی ہے تودوسری حکومت فوراً قائم ہوجاتی ہے مگر ریاست کے ستونوں کو جھٹکے دینا اور ان کو کمزور کرنے کا مقصد ریاست پاکستان کو کمزور کرنا ہے ۔ وہ بھی ایسے دور میں جب ریاست ایک زبردست بحران یا بحرانوں سے گزررہاہے اور روز بروز لوگوں کا اعتماد ریاست اور ریاستی اداروں سے اٹھتاجارہا ہے جو ایک خطر ناک رحجان ہے ۔ ملک اندرونی اور بیرونی خطرات سے گرا ہوا ہے۔ پاکستان عوامی تحریک اور تحریک انصاف کے رہنماؤں کو اس بات کی فکر نہیں، وہ اپنے ایجنڈے پر کام کررہے ہیں۔ ان کوذاتی پبلسٹی کا شوق ہے اور وہ اپنا شوق پورا کررہے ہیں ۔ ان کو پرواہ نہیں کہ ان بحرانوں کے خطر ناک نتائج نکل سکتے ہیں ۔ ان دونوں رہنماؤں کا کردار ،،شو بوائز ،، کا ہے جو اپنی ذات کی پبلسٹی پریقین رکھتے ہیں ۔ ان کی ذاتی سیاست سے سندھی اور بلوچ لا تعلق ہیں ۔ وہ سنجیدہ سیاست پر یقین رکھتے ہیں اور وہ ڈاکٹر طاہر القادری اورعمران خان کی تقاریر اور مطالبات کو غیر سنجیدہ تصور کرتے ہیں۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ سنجیدہ سیاست سے واقفیت نہیں رکھتے بلکہ وہ سیاست کے ساتھ مذاق کررہے ہیں ۔ پاکستان اور اس کے وجود کو خطرات کا سامنا ہے ۔ آئے دن بھارت خطے میں کشیدگی میں اضافہ کررہا ہے ۔ سیاسی طورپر اورفوجی اعتبار سے بھی روز روز لائن آف کنٹرول پر بھارتی افواج فائرنگ کررہی ہے ۔ عبداللہ عبداللہ کے اقتدار میں آنے سے قبل افغانستان اس خطے میں کشیدگی میں اضافہ کررہا ہے ۔ اس نے ملا فضل اللہ اور اسکے گروہ کو پناہ دے رکھی ہے جو آئے دن پاکستانی علاقوں اورمسلح افواج پر حملہ آور ہوتے رہتے ہیں ۔ ابھی تک حکومت افغانستان نے ملا فضل اللہ کے گروہ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی ۔ تیسری جانب ایران کا رویہ روز بروز معاندانہ ہوتاجارہاہے ۔ ایرانی افواج پاک سرزمین پر گولہ باری کرتے رہتے ہیں اور راکٹ داغتے رہتے ہیں۔ جس سے پورے خطے میں کشیدگی میں اضافہ ہوگیا ہے جو کسی وقت بھی جنگی صورت حال پیدا کرسکتا ہے ۔ سینکڑوں افغانی طالبان نے ہلمند میں فوجی چوکیوں پرحملہ کیا ہے ۔ وہاں گزشتہ دس دنوں سے جنگ جاری ہے اور اس میں 330سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں ۔ یہ جنگ پاکستان اور ایران کے سرحدکے قریب لڑی جارہی ہے جس پر ایران اور پاکستان کے سیکورٹی اداروں نے ،، ہائی الرٹ ،، کا اعلان کردیا ہے ۔ پاکستان کے سرحد پر اتنی بڑی جنگ ہر جانب لڑی جارہی ہے ۔ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کو معلوم ہی نہیں یا وہ لا تعلق ہیں کہ بلوچستان میں خواہ کچھ بھی ہوجائے ان کا ٹارگٹ شہباز شریف اور نواز شریف ہیں ۔ سندھ اور بلوچستان کے عوام کو عمران خان کے اسلام آباد میں دھرنا سے کوئی دلچسپی نہیں ۔ پولیس نے پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں پر حملہ کیا تو اس کی تمام سیاسی مکتبہ فکر نے مذمت کی تھی۔ پولیس کی ظالمانہ کارروائیوں کی کسی نے بھی حمایت نہیں کی جس کی وجہ سے پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہبازشریف پورے ملک میں تنہا رہ گئے ۔ ان کی حمایت میں کسی سیاسی لیڈر کا بیان نہیں آیا ۔ پنجاب حکومت نے عدالتی ٹریبونل بنایا کہ وہ پولیس کے جرائم کی تحقیقات کرے مگر ڈاکٹر قادری اس کو تسلیم نہیں کرتے اور کہتے ہیں سرکاری اہلکار جو آئی بی اور آئی ایس آئی میں ہیں وہ تحقیقات کریں ۔ اس مطالبے سے ان کے سوچ کا اندازہ ہوتا ہے کہ موصوف کو ہائی کورٹ کے جج پراعتماد نہیں اور آئی بی اور آئی ایس آئی جو حکومت کے براہ راست ما تحت ہیں ان پر اعتبار ہے ۔ ہمارا یہ خیال ہے کہ کسی قسم کی تحریک خصوصاً حکومت وقت کے خلاف ، عوام اور ریاست کے مفاد میں نہیں ہے ۔ اس سے ملک کی سالمیت کو خطرات لاحق ہوں گے اور اس سے پاکستان کے بیرونی دشمن فائدہ اٹھائیں گے۔ اس سے عوام کی کوئی خدمت نہیں ہوسکتی ۔ البتہ ڈاکٹر قادری اور عمران خان اپنا اپنا پوائنٹ اسکور کرناچاہتے ہیں چاہے ریاست کو نقصان کیوں نہ پہنچے ۔