سپریم کورٹ کو اس وقت حیرانگی ہوئی جب کورٹ کو بتایا گیا کہ حکومت بلوچستان کے عوام کو غذائی اجناس میں کسی قسم کی کوئی رعایت نہیں دی جاتی ۔ عدالت کو یہ بھی بتایا گیا کہ کوئٹہ سے باہر ایک بھی یوٹیلٹی اسٹور نہیں ہے ۔ درجن بھر ایسے سٹور صرف کوئٹہ شہر تک محدود ہیں ۔ کوئٹہ سے باہر یوٹیلٹی اسٹورموجود نہیں ۔ دوسرے الفاظ میں پورے بلوچستان کے عوام کے ساتھ جان بوجھ کر امتیازی سلوک روا رکھا جارہا ہے ۔یوٹیلٹی اسٹورز کا رپوریشن نے آج تک بلوچستان بھر میں اپنا نظام کیوں قائم نہیں کیا؟ پوری کی پوری آبادی سے’ کوئٹہ کے سوا‘ امتیازی سلوک کا کیا جواز ہے ۔ صوبائی حکومت کو چائیے کہ وفاقی حکومت سے مطالبہ کرے کہ بلوچستان کے ہر شہر اور بڑے بڑے آبادی والے علاقوں میں یوٹیلٹی اسٹور قائم کرے ۔ حکومت نے فوڈ سبسڈی کی مد میں دو ارب روپے مختص کےئے تھے۔ اس سے بلوچستان کے عوام کو کچھ بھی نہیں ملا ۔ لہذا عوام کا یہ مطالبہ جائز ہے کہ وفاقی حکومت بلوچستان کے تمام بڑے بڑے شہروں میں سستا بازار لگائے اور ارزاں قیمتوں پر لوگوں کو غذائی اجناس فراہم کرے ۔ صوبائی حکومت کو بھی تماش بین کا کردار ادا نہیں کرنا چائیے ۔ ماہ رمضان میں ارزاں قیمت پر غذائی اجناس کی فروخت کو ہر صورت ممکن بنائی جائے ۔ صوبائی حکومت یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن پر دباؤ ڈالے کہ وہ ہر شہر میں اسٹور قائم کرے تاکہ بلوچستان کے عوام ارزاں اور سستی اشیاء خصوصاً ضرورت کی اشیاء خرید سکیں ۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت 118ارب روپے خرچ کررہی ہے ۔ اس میں کسی حد تک حصہ بلوچستان کو بھی ملتا رہا ہے ۔ مگر حکومتی نظام بلوچستان کے دوردراز علاقوں میں نہیں پہنچ سکی اور بلوچستان کے عوام فوڈ سبسڈی جیسی رعایت یا سہولت سے محروم رہے ۔ صوبائی حکومت ریاستی مشینری کو در دراز علاقوں میں پہنچائے تاکہ عوام الناس کو جدید دور کی سہولیات مہیا ہوسکیں ۔ بعض ماہرین معاشیات نے یہ مشورہ دیا کہ یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن کم سے کم 100سے زیادہ اسٹور بلوچستان کے مختلف علاقومیں قائم کرے۔ ہر سال کم سے کم بیس اسٹور قائم کیے جائیں ۔ وفاقی حکومت کو یہ تاثر دور کرنا پڑے گاکہ بلوچستان کے عوام دوسرے درجے کے شہری ہیں چونکہ وہ حکومت وقت کے لئے سیاسی خطرہ نہیں بنتے اس لئے ان سے امتیازی سلوک جائز ہوجاتاہے یا ان کو ہر معاملے میں نظر انداز کرنا زیادہ پسندیدہ عمل ہے ۔ بلوچستان کے عوام ان تمام سہولیات اور مراعات کے حق دار ہیں جو اس ملک کے دوسرے صوبوں کے لوگوں کو دیا جارہا ہے ۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ وفاق نے گزشتہ ساٹھ سالوں میں بلوچستان میں ترقی کا بنیادی ڈھانچہ تک تعمیر نہیں کیا نہ ہی اس بات کے امکانات ہیں کہ آئندہ نصف صدی میں یہ ڈھانچہ تعمیر ہوسکے گا۔ بلوچستان میں سترفیصد سے زائد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے رہتے ہیں اور پھربھی وہ غذائی اجناس کی قیمتوں میں کسی رعایت کے اہل نہیں سمجھے جاتے۔ اس صورت حال میں وفاقی حکومت کا فرض بنتا ہے کہ غذائی اجناس کی وافر فراہمی کے لیے رعایتی بازار لگا ئے جائیں تاکہ بلوچستان کی ستر فیصد آبادی اس سے فائدہ اٹھائے ۔ صوبائی حکومت کی گندم کی سبسڈی گزشتہ پچاس سالوں میں کرپٹ محکمہ خوراک کے افسران اور مل مالکان میں تقسیم ہوجاتی ہے ۔ اس سے کم سے کم بلوچستان کے عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا ۔ محکمہ خوراک کے ایک ایک افسران اربوں روپے ہڑپ کر گئے ۔ گوداموں سے گندم چوری کرکے اور اسمگلروں کے ہاتھوں گندم اور آٹا فروخت کرکے بلوچستان کے عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا گیا ۔