سماج کی بہتری کے لیے اس کی ابتری کو تنقیدی نکتہ نگاہ سے دیکھنے اور بیان کرنے والے ہمیشہ اپنے سماج بالخصوص طاقت ور حلقوں کے ہاں راندہِ درگاہ رہے ہیں،خواہ ایوانِ اقتدار میں کیسا ہی دانش ور کیوں نہ متمکن ہو۔ سقراط سے لے کر ڈارون تک، یسوح سے لے کرمارکس تک، یا خواہ ہمارے عہد میں مگرمغرب کا نوم چومسکی ہو یا مشرق کی اروندھتی اپنے تنقیدی زاویہ نظر کے باعث یہ اپنے عہد میں اپنے سماج کے ’اَن فٹ‘ لوگ رہے ہیں۔ایسے لوگوں کو مردم بے زار، انسانوں کو مایوس کرنے والے اور قنوطیت پسند بھی کہا جاتا ہے۔ساحر لدھیانوی اور گل خان نصیر کے تیز و تند دبنگ کلام پہ بھی جب انھیں جمالیات سے محروم شاعر کہا گیا تو ان احباب کو بھی اپنی وضاحت میں ایسی نظمیں لکھنا پڑیں، جس میں انھیں بتانا پڑا کہ وہ بھی انسان ہیں اور حسن سے محظوظ ہوتے ہیں، لیکن اردگرد کی ابترسماج کی بہتری کے لیے اس کی ابتری کو تنقیدی نکتہ نگاہ سے دیکھنے اور بیان کرنے والے ہمیشہ اپنے سماج بالخصوص طاقت ور حلقوں کے ہاں راندہِ درگاہ رہے ہیں،خواہ ایوانِ اقتدار میں کیسا ہی دانش ور کیوں نہ متمکن ہو۔ سقراط سے لے کر ڈارون تک، یسوح سے لے کرمارکس تکی انھیں چین نہیں لینے دیتی۔ جمالیات سے لبریز فیض کو بھی کہنا پڑا،’لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجیے!‘ بلوچستان میں پہلی غیر سردار حکومت کے قیام پہ شادیانے بجانے والے سادہ لوحوں نے بھی سماجی بہتری کے کئی خواب بُنے تھے۔ اب جب یہ خواب تاریک راہوں میں گم ہوتے نظر آتے ہیں تو ان کا نوحہ پڑھنے والوں کو قنوطیت پسند کہا جاتا ہے۔ متوسط طبقے کے حکمرانوں کا گلہ ہے کہ لکھنے والوں نے ایسی کڑی تنقیدی نگاہ کبھی سرداروں کی حکومت پہ نہیں رکھی، نیز یہ کہ ہماری خامیاں تو گنوائی جاتی ہیں، خوبیوں یا کامیابیوں پہ کوئی بات نہیں ہوتی۔ یہ درست ہے، اعتدال کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ہر حکومت کے ہردو پہلوؤں پہ نظر رکھی جائے۔ لیکن چونکہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت کو ان کی خوبیاں بتانے (اور بڑھا چڑھا کر بتانے) والے بہت ہوتے ہیں، اس لیے نیک نیت خیر خواہوں کو ان کی خامیوں کی نشاندہی کرتے رہنا چاہیے تاکہ بہتری کی جانب سفر ممکن ہو۔ لیکن اگر محض تسلی کے لیے ہی کامیابیوں یا کارناموں کی فہرست گنوانا ضروری ہے، تو آئیے آج ایک نظر اس پہ بھی ڈال لیتے ہیں۔ اس بات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن میرا خیال ہے کہ موجودہ حکومت نے اپنے نو ماہ کے دوران اتنا نتیجہ ضرور دیا ہے، جتنا کہ ’نو ماہ‘ کا منطقی نتیجہ بر آمد ہوتا ہے۔ہم یہاں ان چیدہ چیدہ نکات کا ذکر کریں گے، جنہیں موجودہ حکومت کا کریڈٹ کہا جا سکتا ہے۔ اس رائے سے اختلاف بہرحال ممکن ہے۔
*نئی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی انھیں ورثے میں ملنے والے اہم ترین مسائل میں سیاسی کارکنوں کی گم شدگی اور گم شدہ ہو جانے والوں کی برآمدگی تھا۔ جس کا اعتراف حکومت میں آتے ہی خود حکمرانوں نے بھی کیا تھا۔ گو کہ گم شدہ افراد کی بازیابی کے سلسلے میں اب تک حکومت کوئی خاطر خواہ اقدام نہیں کر پائی، لیکن بہرحال ان نو ماہ میں بلوچستان بھر میں سیاسی کارکنوں کے لاپتاہونے کی رفتارمیں کمی ضرور آئی ہے۔ ابھی پچھلے برس کی بات ہے کوئی دن نہ جاتا تھا کہ جب بلوچستان میں کوئی لاپتا نہ ہوتا ہو یا کوئی مسخ شدہ لاش برآمد نہ ہوتی ہو۔ ایسا نہیں کہ ان نو ماہ میں ایسا ایک بھی واقعہ نہیں ہوا، لیکن ان واقعات کی رفتار میں تیزرو کمی ضرور آئی ہے۔ توقع کی جا سکتی ہے کہ ممکن ہے اتنے ہی مزید عرصے میں یہ سلسلہ مستقل طور پر تھم جائے۔
* نئی حکومت کو اقتدار سنبھالتے ہی جس دوسرے اہم ترین مسئلے کا سامنا تھا ،وہ امن و امان کی دگرگوں صورت حال تھی۔ جس نے صوبے کے عوام کا جینا محال کر رکھا تھا۔ایک طرف اغوا برائے تاوان اور چوری و ڈکیتی کی وارداتیں بلوچستان میں معمول بن چکی تھیں، تو دوسری طرف فرقہ وارانہ فسادات نے یہاں کے سماجی ڈھانچے کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا تھا۔گوکہ نوماہ میں ان کا مستقل خاتمہ نہیں ہو سکا اور نہ ہی ممکن تھا، لیکن اس سلسلے میں قابلِ اطمینان حد تک کمی ضرور واقع ہوئی ہے۔ موجودہ حکومت کے دورانیے میں اغوا برائے تاوان کے ایک واقعہ کے سو ا اور کوئی قابلِ ذکر واقعہ نہیں ہوا۔ جب کہ تشویش ناک حد تک بڑھ جانے والے فرقہ وارانہ فسادات میں بھی ایک حد تک کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
* نئی حکومت کو مالی کرپشن کا داغ بھی ورثے میں ملا تھا۔ گذشتہ حکومت میں وزیر رہنے والے افراد بلاشبہ ارب پتی بن گئے۔ موجودہ سرکار نے آتے ہی ایک اہم کام یہ کیا کہ کرپشن کا ایک بڑا منبع، وزیراعلیٰ کے خفیہ فنڈ کا خاتمہ کر دیا۔ گو کہ صوابدیدی فنڈز کا استعمال اب بھی جاری ہے، لیکن یہ ٹیبل کے نیچے سے نہیں ہوتا، جو بھی ہوتا ہے، سرکاری سطح پر اس کا اعلان بھی ہوتا ہے، اور سرکاری ضابطے کے مطابق اس پہ کارروائی ہوتی ہے۔ گو کہ اس سلسلے میں جاری کیے گئے فنڈز کے حساب کتاب کے معاملے کو ضابطے میں لانے کا کام ابھی باقی ہے۔وزرا ء کی منہ زور اور بے لگام کرپشن کو روکنے کا نتیجہ ہی ہے کہ ہر دوسرے ماہ وزراء کی ناراضگیوں اور استعفے جمع کرانے کی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں۔ پاکستان میں سرکاری کرپشن کا درخت اس قدر تناور ہو چکا ہے کہ اب اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنا اگر ناممکن نہیں تو اس قدر کارِ سہل بھی نہیں۔ ایسا نہیں کہ موجودہ حکومت یا اس کے وزراء دودھ سے دھلے ہوئے ہیں لیکن پچھلی حکومتوں کی نسبت گذشتہ نوماہ میں سرکاری سطح پر خردبرد میں خاطر خوا ہ کمی ضرور آئی ہے۔
*تعلیم اور صحت کے شعبوں میں حکومت نے آتے ہی خصوصی توجہ دینا شروع کر دی تھی۔ صوبے میں تعلیمی ایمرجنسی تک کا اعلان کر دیا گیا۔ اس سلسلے میں اہم پیش رفت مادری زبانوں میں تعلیم دینے کی کاوش ہے۔ جس پہ نو ماہ میں خاطر خواہ کام ہوا ہے۔ لگ بھگ بلوچستان کی سبھی زبانوں کا ابتدائی جماعتوں کا نصاب تیار ہو چکا ہے، جو جلد ہی اسکولوں میں موجود ہو گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اب اساتذہ کو اس سلسلے میں متعلقہ مہارتوں سے بھی لیس کیا جائے، اس سلسلے میں بھی کریکولیم ڈائریکٹریٹ میں تیزی سے کام جاری ہے۔ تعلیم کے شعبے میں دوسری اہم پیش رفت اہم تعلیمی اداروں کا قیام ہے۔ مکران میں ایک مکمل یونیورسٹی کا آغاز اور میڈیکل کالج کا قیام اس خطے میں سماجی تبدیلی کی رفتار کو آگے بڑھانے میں انتہائی اہم ثابت ہو گا۔نصیرآباد میں یونیورسٹی کیمپس اور زرعی کالج کے قیام کا اعلان اس علاقے کی دیرینہ ضرورت تھی۔ اس فیصلے کو بھی ضرور سراہا جانا چاہیے۔
* سماجی شعبے میں بھی بعض اہم پیش رفتیں ہوئی ہیں۔ بلوچستان پچھلے کئی برسوں سے صحافیوں کے لیے خطرناک ترین خطہ رہا ہے۔ پانچ برسوں میں یہاں پینتیس صحافی ہلاک ہوئے ہیں۔ حکومتیں محض انہیں طفل تسلیاں ہی دیتی رہیں۔ موجودہ حکومت نے نہ صرف شہید صحافیوں کے لیے مالی امداد جاری
کی، بلکہ ان کے لیے قائم کیے گئے فنڈ میں بھی اچھی خاصی رقم کا اضافہ کیا۔اسی طرح ادبی اداروں کی امداد میں بھی اضافہ کیا گیا ۔پاکستان میں جس طرح گذشتہ برسوں میں فیض صدی اور منٹو صدی منائی گئی، اسی طرح بلوچستان کے ملک الشعرا ء گل خان نصیر کے سو سالہ یوم ولادت پہ بلوچستان حکومت نے اس سال گل خان نصیر صدی منانے کا اعلان کیا۔ ادبی تنظیموں کو اس سلسلے میں معاونت کی پیش کش کی گئی۔ گل خان نصیر کے آبائی علاقہ نوشکی کے گرلز کالج کو ان کی بیٹی اور بلوچی کی افسانہ نگار گوہر ملک کے نام سے منسوب کیا گیا۔ گو کہ اس ضمن میں نااہل افراد کو نوازنے کی خبریں بھی رہی ہیں،لیکن مجموعی طور پر یہ اقدام سراہے جانے کے قابل ہے، نیز اس سلسلے میں بہتری کی گنجائش اور بہت کچھ کیا جانا ابھی باقی ہے۔
* اب حکومت کو جس اہم ترین مسئلے کا سامنا ہے وہ ہے مزاحمتی تنظیموں سے بات چیت کا مرحلہ۔ گو کہ اب تک اس سلسلے میں کوئی اہم پیش رفت نہیں ہو سکی، نہ ہی سخت گیر موقف کی حامل تنظیمیں اس ضمن میں کسی قسم کی لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے نظر آتی ہیں، لیکن اتنا ضرور دیکھا گیا ہے کہ بلوچستان بھر میں بالخصوص کوئٹہ سمیت بڑے شہروں میں ان کی کارروائیوں میں قابلِ ذکر کمی آئی ہے۔اس کا تعلق خود ان تنظیموں کے اندرونی یا بیرونی معاملات سے بھی ہو سکتا ہے، لیکن بہرحال حکومت اس کا کریڈٹ لینے میں بجا ہو گی۔
حکومت کے اطمینانِ قلب کے لیے ایسی کئی اور کامیابیاں گنوائی جا سکتی ہیں لیکن یہ ذہن نشین رہے کہ کسی ایک لاش کی برآمدگی، کہیں ایک کالج میں چھاپے کا واقعہ، یا کسی ایک بے ضررکتاب پرپابندی کا معاملہ ان تمام کامیابیوں اور حاصلات پہ پانی پھیرنے کو کافی ہوتا ہے۔ اس لیے موجودہ حکومت کو مزید تیزی سے اپنی کارکردگی بہتر بنانا ہو گا تاکہ ان کے خیر خواہ بجا طور پر اور فخریہ ان کی کامیابیاں گنوا سکیں۔