|

وقتِ اشاعت :   July 5 – 2014

معاشرے میں علم اور عمل کے کردار اور اہمیت پہ کوئی دو رائے نہیں۔ جدید عہد میں کوئی خودکشی پہ مائل معاشرہ abid mirہی ہو گا جو علم کے میدان میں دلچسپی نہ لیتا ہو۔ تعلیم، علم کے حصول کی جانب لے جانے والا اہم راستہ ہے۔ یہ وہ کنجی ہے جو ہمیں علم کے مالامال خزانے سے روشناس کرواتی ہے۔ تعلیم وہ سیڑھی ہے، جو ہمیں علم کی بلندیوں تک پہنچاتی ہے۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ وہ معاشرے جنہوں نے تعلیم پہ توجہ دی، علم کی معراج کو پہنچے۔ جدید معاشرتی تصور میں تمام شہریوں تک مفت تعلیم کی رسائی ریاست کی اہم ترین ذمہ داریوں میں سے ہے، لیکن تیسری دنیا کے اکثر ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی ریاست اپنی دیگر ذمہ داریوں کی طرح اس اہم ذمہ داری کو نبھانے میں بھی ناکام رہی ہے۔ اس کی بنیادی وجوہات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ریاستی امور کی باگ ڈور شروع دن سے تعلیم دشمن جاگیرداروں اور ان کی غلام افسر شاہی کے ہاتھ میں رہی۔ جس کے باعث پاکستان میں درست تعلیمی ترجیحات تک کا تعین ہی نہ ہوسکا۔ جب ریاست اپنے فکری مزاج کا ہی تعین نہ کر سکے تو تعلیمی ترجیحات کا تعین بھلا کیونکر ہو سکتا ہے۔ پاکستان کا ایک جزو ہونے کے باعث ظاہر ہے تعلیم سے متعلق اس گومگوں کیفیت کے اثرات بلوچستان تک بھی پہنچے۔ جو اپنے نیم قبائلی مزاج اور گنجلک جغرافیے کے باعث تعلیمی لحاظ سے پہلے ہی دگرگو ں مسائل کا شکار رہا ہے۔ اوپر سے ایک قلیل دورانیے کو چھوڑ کر مسلسل غیر جمہوری حکومتوں کے باعث یہ شعبہ گویا پستی کی انتہاؤں کو جا پہنچا ہے۔ یہ وہ پس منظر ہے جس میں صوبے کی نئی مڈل کلاس جمہوری حکومت نے اپنے کٹھن سفر کا آغاز کیا۔ ظاہر ہے کانٹوں بھری راہ کا یہ سفر کسی طورموجودہ حکمرانوں کے لیے سہل نہیں۔ لیکن نیپ کے بعد پہلی بار ایک عوامی حکومت کے اقتدار میں آنے کے باعث یہ نہ صرف عوام و خواص کی توجہ کا مرکز رہی ہے، بلکہ ان کی امیدوں کا محور بھی۔ یہ عوامی حکومت عوام کی ان امیدوں پہ کتنا پورا اترتی ہے، اس کا اندازہ تو اس کی ایک سالہ کارکردگی سے لگایا جا سکتا ہے۔اس نئی حکومت نے آتے ہی جن دو شعبوں میں انقلابی اصلاحا ت کا اعلان کیا تھا،وہ تھے؛تعلیم اور صحت۔ ہمارا موضوعِ بحث فی الوقت تعلیم ہے۔ تعلیم کے میدان میں وزیراعلیٰ بلوچستان نے اپنی حکومت کے اولین مالی سال کے بجٹ میں تعلیم سے متعلق جن اقدامات کے عزم کا اعادہ کیا تھا ،اس سے اندازہ ہوتا تھا کہ نئی حکومت نے تعلیمی میدان میں اپنی درست ترجیحات کا تعین کر لیا ہے۔ ترقیاتی وغیر ترقیاتی اخراجات کی مد میں مالی سال 2013-14میں محکمہ تعلیم کے لیے 34898.635ملین روپے مختص کیے گئے جو کہ گذشتہ مالی سال کے مقابلے میں 42فیصد زیادہ تھا۔نئی حکومت کے اعلانات میں صوبے میں تین نئے میڈیکل کالجز،بلوچستان میڈیکل کالج اورزرعی کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دینا،خضدار میں بلوچستان یونیورسٹی کے کیمپس کا قیام، تین سو نئے پرائمری اسکولوں کا قیام،تین سو پرائمری اسکولوں کو مڈل اور ڈیڑھ سو مڈل اسکولوں کو ہائی سکول کا درجہ دینے کے علاوہ اسکولوں میں اضافی کمروں کی تعمیر کے لیے ایک ارب روپے، ہائی اسکولوں میں امتحان ہال، لیبارٹریز اور لائبریریوں کے قیام کے لیے پچاس کروڑ روپے،نیز کالجز کے لیے بھی پچاس کروڑ روپے کی رقم مختص کی گئی ۔ وزیر اعلیٰ نے تعلیمی صورت حال سے متعلق اپنی تشویش کا بھی بارہااظہار کیا۔تعلیم کے میدان میں ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ بلوچستان کے جغرافیائی حالات، منتشر آبادی کے تناظرمیں تعلیمی پالیسی میں اصطلاحات کرنا ہوں گی تاکہ پوری آبادی کو تعلیمی سہولیات مہیا کی جاسکیں۔مادری زبانوں میں تعلیم کے بنیادی حق کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔انہوں نے مزید کہا کہ معاشرے کی مجموعی ترقی کے عمل میں تعلیم کی کلیدی اہمیت کے پیش نظر ہماری ترقیاتی حکمت عملی میں تعلیمی شعبے کی ترقی کو اولین ترجیح حاصل ہے۔ تعلیمی ترقی کے حوالے سے ہمارا عزم ہے کہ ہم اِس شعبہ کو جلد از جلد ترقی یافتہ صوبوں کے مساوی لائیں گے۔جدید ٹیکنیکل اور سائنسی آلات مہیا کرکے تعلیمی اداروں کو جدید دنیاکے برابر لایا جائے گا۔اور سب سے اہم نقطہ یہ کہ تعلیمی نصاب سے نفرت پھیلانے والے تمام مواد کو نکالا جائے گا۔ اگر یہ دعوے درست ثابت ہوتے تو اسے کم از کم بلوچستان میں تعلیمی سطح تک ایک مثبت انقلابی پیش رفت قرار دیا جا سکتا تھا۔ گو کہ مادری زبانوں کو ذریعہ بنانے سے متعلق ماہرین میں اختلافات موجود ہیں، لیکن حکومت وسیع پیمانے پر مکالمے کی فضا کو قائم کرتے ہوئے فی الوقت انہیں کسی ایک نقطے پر متفق ہونے پہ مجبور کر سکتی ہے۔ ظاہر ہے اولین کوشش کسی بھی صورت حتمی اور مکمل نہیں ہو گی، بلکہ یہ محض بارش کا پہلا قطرہ ہو گا، جس کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔ اس میں بہتری کی گنجائشیں بہرحال موجود رہیں گی، جنہیں ماہرین کی مسلسل مشاورت سے مکمل کیا جا سکتا ہے۔ یہ امر قابلِ غور ہے کہ ایک طرف جہاں ایک صوبے میں تعلیمی نصاب میں انتہا پسندی سے متعلق مواد شامل کیا جا رہا ہے، وہیں دوسری طرف بلوچستان حکومت کی جانب سے نفرت پر مبنی ہر قسم کے مواد کو نصاب سے خارج کرنے کا عزم ، تعلیمی میدان میں ان کی درست سمت کی جانب واضح اشارہ ہے۔ یہ صرف حکومت کی نہیں، بلکہ اس صوبے کی وہ مجموعی سمت ہے، جسے غلط راستے پر ڈالنے کی کوئی کوشش کسی صورت کامیا ب نہیں ہونی چاہیے۔ اس صورت میں حکومت نے تعلیمی میدان میں درست سمت میں سفر کا آغاز کیا، اور درست آغاز ہی صحیح منزل کا نقیب ہوتا ہے، بشرطیکہ قافلہ راہ نہ بھٹکے۔ لیکن عملاً بلوچستان کی تعلیمی صورت حال کیا ہے، آئیے کچھ اعدادو شمار دیکھتے ہیں۔ 2005میں بلوچستان کے سیاسی و معاشی معاملات کے حل کے لیے تشکیل دی گئی پارلیمانی کمیٹی کی رپورٹ میں دئیے گئے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں مجموعی شرح خواندگی 47فیصد اوربلوچستان میں 26.6فیصد ہے۔ جب کہ بچیوں میں یہ شرح پاکستان میں 33فیصد اور بلوچستان میں صرف15فیصد ہے۔ پرائمری سکولوں میں حاضری کی شرح پاکستان میں مجموعی طور پر 68.3فیصد ہے اور بلوچستان میں49فیصد ہے۔جب کہ بچیوں میں یہ شرح ملکی سطح پر 49.2اور بلوچستان میں صرف21فیصد ہے۔ ابھی گذشتہ برس ستمبر کے اخبارات میں بلوچستان کے فیوڈل پس منظر رکھنے والے دو اضلاع سے متعلق یونیسیف کی ایک سروے رپورٹ شایع ہوئی ، جس میں بتایا گیا کہ نصیرآباد، جعفرآباد میں 2لاکھ46ہزار بچے بنیادی تعلیم سے محروم ہیں۔نصیرآباد میں کل بوائز ہائی سکول 20،گرلز سکول12،مڈل بوائز سکول18،گرلز مڈل سکول14،بوائز پرائمری سکول297،گرلز پرائمری سکول128،جب کہ اسکولوں کی مجموعی تعداد479ہے۔ یونیسیف کے مطابق مجموعی طور پر بلوچستان میں 22لاکھ،نصیرآباد میں71ہزار،جعفرآباد میں75ہزار بچے بنیادی تعلیم سے محروم ہیں۔ایسی ہی ایک اور رپورٹ میں ضلع مستونگ سے متعلق بتایا گیا کہ وہاں کے 95فیصد گرلزسکول انتظامی سربراہوں سے محروم ہیں۔جب کہ 70فیصد گرلز مڈل سکولز پی ٹی آئی،ڈرائنگ اور عربی ٹیچرسے گذشتہ کئی برسوں سے محروم ہیں۔ یہ اعدادو شمار از خود بلوچستان میں تعلیمی ایمرجنسی کا جواز ہیں۔ حکومت کو بلا تاخیر بجٹ میں اعلان کردہ اعلانات پہ فی الفور عمل در آمد کرنا چاہیے تھا۔ لیکن صورت حال یہ ہے کہ آج بھی صوبے کے نصف سے زائد تعلیمی ادارے بند پڑے ہیں،اور جو کھلے ہیں ،وہ بنیادی سہولیات سے ہی محروم ہیں۔حال ہی میں حکومت نے نئے بجٹ میں تعلیم کی مد دی گئی رقم میں مزید اضافہ کیا ہے۔لیکن محض بجٹ میں اضافے سے تعلیمی بہتری میں اضافہ ممکن نہیں۔اچھے کام کی محض نیت کافی نہیں۔معاملہ عمل کا بھی ہے۔ خوش نما نعرے جب تک عملی صورت اختیار نہیں کرتے، حکمران عوام میں اپنا اعتماد قائم نہیں کر پائیں گے۔